ایک بندے نے قسم اٹھائی کہ میں نے دو لاکھ روپے ادا کردیے، اور اگر میں جھوٹ بولوں تو میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا ہوں۔ قسم اٹھانے والا کہتا ہے کہ مجھے پتہ تھا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور دل میں توبہ استغفار بھی کر رہا تھا اور میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ یہ قسم صرف میں نے جان بچانے کے لیے اٹھائی ہے۔ میرا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، یہ بھی یاد رہے کہ بیوی سامنے نہیں تھی، صرف میں تھا اور کسی اور جگہ جا کر قسم اٹھوائی تھی، اب آپ یہ بتائیں کہ قرآن و حدیث کی روشنی کے مطابق کہ ایک ہی وقت میں تین طلاق مجبوری کی وجہ سے اور بغیر نیت دینے سے طلاق ہو جاتی ہے یا نہیں ہوتی۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے مذکورہ مشروط طلاق کا جملہ کہنے کے بعد جھوٹ بولنے کی وجہ سے معلق تین طلاق کی شرط پائی گئی، لہذا جب اس نے جھوٹ بولا اور خود اس کی تصدیق بھی کرتا ہے تو اس سے اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، نکاح ختم ہوگیا، اب رجوع جائز نہیں اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے، مطلقہ اپنی عدت( پوری تین ماہورایاں اگر حمل نہ ہو اور حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
طلاق کے صریح الفاظ اگر کہے ہوں اور طلاق دینے کی نیت بھی نہ ہو تب بھی اس سے شرعاً طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"رجل قال: إن كذبت فامرأتي طالق فسئل عن أمر فحرك رأسه بالكذب لا يحنث في يمينه ما لم يتكلم كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق، بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ج:1، ص:448، ط:رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100569
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن