میرے بھائی کا انتقال ہوا اور وراثت میں 9لاکھ پاکستانی روپیہ اور ایک چھوٹا سا گھر چھوڑ گئے ، جس میں اس کی دو بیوائیں رہتی ہیں، جن کی عمر کافی زیادہ ہے، جو کہ شادی کرنے کے لائق نہیں ہیں اور مرحوم کا کوئی بیٹا نہیں رہا اور باقی ورثا کی تفصیل ذیل ہے۔
مرحوم کی 2 بیوائیں ہیں، مرحوم کی 5بیٹیاں ہیں جو کہ شادی شدہ اور صاحبِ اولاد ہیں، مرحوم کی 3بہنیں ہے جو کہ شادی شدہ اورصاحبِ اولاد ہیں، مرحوم کے 3بھائی ہیں جو کہ شادی شدہ اورصاحبِ اولاد ہیں۔
نوٹ: مرحوم کے بھائی کافی عرصے سے الگ الگ زندگی کر رہے ہیں یعنی ان کے اپنے اپنے گھر اور بچے ہیں ،لہذا جناب سے التماس کی جاتی ہے کہ مرحوم کے میراث میں کون کون وارث ہیں؟ اور مرحوم کی وراثت کس کس وارث کو کس کس حصے میں تقسیم ہوگی؟
مرحوم نے یہ بھی وصیت کی تھی کہ میرے بعد میرے وراثت میں جو بھی بچتا ہے وہ میری بیوی اور بیٹیوں کو دینا بہنوں اور بھائیوں کو نہ دینا۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے بھائی کی میراث کے حق دار اس کی بیوائیں، بیٹیاں، بھائی اور بہن ہیں، لہذا مرحوم کے یہ کہنے کا شرعا اعتبار نہیں کہ "میرے بعد میری وراثت میں جو بھی بچتا ہے وہ میری بیوی اور بیٹیوں کو دینا، بہنوں اور بھائیوں کو نہ دینا"، کیوں کہ وارث کے حق میں وصیت کرنا معتبر نہیں اور کسی وارث کو میراث سے محروم کرنے کی وصیت کرنا جائز ہی نہیں۔
مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو کل ترکہ میں سے قرضہ ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ میں سے اس کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل منقولہ و غیرمنقولہ ترکہ کو 2160 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی ہر ایک بیوہ کو 135 حصے، ہر ایک بیٹی کو 288 حصے، مرحوم کے ہر ایک بھائی کو 100 حصے اور ہر ایک بہن کو 50 حصے ملیں گے۔
یعنی مثلا 100 روپے میں سے 6.25 روپے ہر ایک بیوہ کو، 13.33روپے ہر ایک بیٹی کو، 4.62 روپے ہر ایک بھائی کو اور 2.31 روپے ہر ایک بہن کو ملیں گے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200650
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن