بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میدانِ جہاد مین خون میں لت پت ہونے کی حالت میں نماز کا حکم


سوال

کیا جہاد  کے میدان میں خون سے لت پت ہونے کی حالت میں نماز ہوسکتی ہے؟

جواب

خون نجس اور ناپاک ہے، اس لیے جسم  خون میں لت پت  ہونے کی حالت میں نماز نہیں ہوتی، بلکہ جسم سے خون کو دھوکر پھر نماز پڑھنی چاہیے، البتہ اگر کوئی زخم لگنے اور زخموں سے خون جاری ہونے کی وجہ سے شرعاً معذور کے حکم میں ہوگیا ہو تو پھر اس کی نماز شرعاً معذور رہنے تک خون میں لت پت ہونے کے باوجود ادا ہوجائے گی۔

زخمی شخص کو شرعاً اس وقت معذور قرار دیا جائے گا جب اس کے زخم سے مستقل خون نکل رہا ہو اور اس عذر نے ایک نماز کے مکمل وقت کا استیعاب کرلیا ہو  اس طور پر کہ اس وقت میں  خون کے نکلنے میں اتنا بھی وقفہ نہ آرہا ہو کہ وہ وضو کر کے فرض نماز پڑھ سکے تو یہ شخص شرعاً معذور کے حکم میں داخل ہوجائے گا، اس کے بعد جب تک ہر نماز کے وقت میں کسی نہ کسی درجہ میں یہ عذر پایا جائے یہ شخص شرعاً معذور کے حکم میں رہے گا، ہر نماز کے وقت میں مکمل وقت کا استیعاب شرط نہیں ہے، البتہ اگر کسی ایک نماز کا وقت بھی ایسا گزر گیا جس میں بالکل بھی زخم سے خون نہیں نکلا تو پھر یہ شخص معذور کے حکم سے نکل جائے گا۔  شرعی معذور   کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلیا کرے اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہے فرائض اور نوافل ادا کرلے (اس ایک وقت کے درمیان میں زخم سے جتنا بھی خون بہے وہ پاک ہی رہے گا بشرطیکہ کوئی اور سبب وضو کوتوڑنے کانہ پایا جائے) یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، یعنی جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو اس کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔
اور اگر خون کے قطرےجسم یا  کپڑوں پر گرے ہوئے ہوں تو اس صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کس تسلسل سے نکل رہے ہیں، اگر اتنا بھی وقت نہ ملے کہ فرض نماز شروع کرنے سے پہلے جسم یا  کپڑے کو دھویا جائے تب بھی  دورانِ نماز زخم سے خون نکل کر  جسم یا کپڑوں پر لگ جائے گا تو اس صورت میں ان قطروں کا دھونا واجب نہ ہوگا، اگرچہ یہ قطرے مقدارِ درہم سے تجاوز ہی کیوں نہ کرجائیں اور اگر  یہ گمان ہے کہ ان قطروں کو دھونے کے بعد یہ دورانِ نماز مزید نہ نکلیں گے تو اس صورت میں جسم یا کپڑوں پر خون لگے ہونے کی صورت میں ان کا دھونا واجب ہوگا اور بغیر دھوئے ہوئے نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 305):

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لايمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. (وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه  ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر. (وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لايغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى،  وكذا مريض لايبسط ثوبه إلا تنجس فوراً له تركه  (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته".

الفتاوى الهندية (1/ 40):

"(ومما يتصل بذلك أحكام المعذور) شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملا وهو الأظهر كالانقطاع لايثبت ما لم يستوعب الوقت كله ... وشرط بقائه أن لايمضي عليه وقت فرض إلا والحدث الذي ابتلي به يوجد فيه، هكذا في التبيين . المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لايرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل، هكذا في البحر الرائق.... إذا كان به جرح سائل وقد شد عليه خرقة فأصابها الدم أكثر من قدر الدم أو أصاب ثوبه إن كان بحال لو غسله يتنجس ثانياً قبل الفراغ من الصلاة جاز أن لايغسله وصلى قبل أن يغسله وإلا فلا، هذا هو المختار هكذا في المضمرات". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں