کیا بینک میں زکاۃ کی کٹوتی پر زکاۃ ادا ہو جائے گی یا نہیں ؟
اگر بینک یا حکومت کھاتے داروں کی اجازت سے اصل رقم سے زکاۃ کاٹ کر مستحقینِ زکاۃ کو مالکانہ طور پر دیتی ہے تو زکاۃ ادا ہوجائے گی۔ اور اگر حکومت یا بینک کھاتے داروں کی اجازت کے بغیر زکاۃ کی کٹوتی کرلیں یا اصل رقم کے بجائے سود کی رقم میں سے زکاۃ کاٹیں تو زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔
جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:
’’سوال: حکومتِ پاکستان نے جو زکاۃ وعشر کا نظام قائم کیاہے، اس طور سے نصاب کی زکاۃ ادا ہوجائے گی یا نہیں؟ اور اس کمیٹی میں جو اس زکاۃ و عشر کو مستحقین میں تقسیم کرتی ہے ملازمت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ کیوں کہ یہ رقم مالک کی اجازت کے بغیر کاٹی جاتی ہے۔
جواب: حکومت بینکوں کے ذریعے جو زکاۃ کی رقم کاٹتی ہے اگر اصحابِ رقم کی اجازت اور اطلاع کے بغیر کاٹتی ہے تو اصحابِ رقم کی طرف سے نیت اور اختیار سے زکاۃ نہ دینے کی وجہ سے زکاۃ ادا نہ ہوگی، البتہ جو لوگ رقم جمع کراتے وقت بینک والوں کو زکاۃ کاٹنے کا اختیار دے دیتے ہیں یا اس کی نیت کرلیتے ہیں تو زبردستی بغیر رضا و رغبت کے رقم وصول کرنے کے باوجود مفتی بہ قول کے مطابق اس آخری صورت میں زکاۃ ادا ہوجائے گی۔
رہی یہ بات کہ حکومت مصارفِ زکاۃ میں رقم خرچ کرتی ہے یا نہیں؟ تو اس کی ذمہ داری ذاتی طور پر حکومت اور اجتماعی طور پر متعلقہ لوگوں پر ہے، لیکن جو ملازمین یا عہدے دار جو صرف تقسیم کا حق رکھتے ہیں اگر وہ اپنی صواب دید کے مطابق تقسیمِ زکاۃ کا اختیار رکھتے ہیں تو پھر عہدہ تقسیمِ زکاۃ کے سلسلے میں قبول کرسکتے ہیں، لیکن اگر کوئی اپنی صواب دید کے مطابق مستحقین میں زکاۃ تقسیم کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، بلکہ بلاامتیاز تقسیم کرنا پڑتاہے تو ایسی صورت میں عہدہ قبول کرنا نامناسب، خلافِ اولیٰ اور مکروہ ہے، لیکن ناجائز نہیں؛ کیوں کہ اصل ذمہ داری حکومت اور بااختیار افسران پر عائد ہوتی ہے۔
کتبہ: محمد عبدالسلام (26/11/1402)‘‘ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200681
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن