بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

بینات

 
 

علمائے کرام اور سائنسدانوں کی ذمہ داریاں  اور کام کا دائرہ کار

علمائے کرام اور سائنسدانوں کی ذمہ داریاں  اور کام کا دائرہ کار


تحقیق کی آڑ میں شریعت کی مَن مانی تشریح

 

اُمتِ مسلمہ کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو بہت سے فکری اور نظریاتی فرقے بنے ہیں، جن سے اُمت میں افتراق و انتشار پیدا ہوا ہے۔ اگر ان فرقوں کے بننے کے عوامل پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان فرقوں کے بننے کی بنیادی وجہ قرآن و حدیث کی مَن مانی تشریح ہے۔ قرآنِ پاک کے معنی کے لیے جو شرائط وآداب ہیں اُن سے متعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس کے لیے پندرہ علومِ دینیہ میں مہارت اور دسترس حاصل کرنا ضروری ہے اور ان میں سب سے اہم علمِ وہبی ہے جو کہ حق سبحانہ تقدس کا عطیۂ خاص ہے، جو کہ وہ اپنے مخصوص بندوں کو عطا فرماتے ہیں، یعنی تھوڑی عربی جان لینے یا اردو ترجمے دیکھ کر اگر کوئی اپنی رائے داخل کرے گا تو یہ سراسر گمراہی ہوگی۔ 
اگر ماضی قریب کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے توان فتنوں کو پیدا کرنے والوں میں بعضے پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان اور ایسے نام نہاد عصری علوم و جامعات کےمحققین شامل تھے جنہوں نے اسلاف کی رائے سے ہٹ کر تحقیق کی آڑمیں شریعت کی مَن چاہی تشریح عوام کے سامنے پیش کی اور عوام کی ایک بڑی تعداد اُن کی وجہ سے گمراہ ہو گئی اور یہ گمراہی پھیلانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ تمام پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، اور محققین حضرات ہی گمراہ ہوگئے ہیں، لہٰذا یہ قطعاً مناسب نہیں کہ ہم عمومی طور پر ان تمام حضرات پر ہی گمراہی کا لیبل چسپاں کردیں اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے۔ ماضی بَعِید میں مسلمان سائنسدانوں میں ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی، فخر الدین رازی، ابو نصر محمد بن محمد فارابی، ابن سینا، محمد بن موسیٰ خوارزمی، امام غزالی، اور ابن خلدون جیسےقابلِ ذکر نام ہمیں نظر آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر سائنسدان طب، فلکیات، طبیعات، کیمیا، فلسفہ، علم الکائنات (کونیات)، ما بعد الطبیعات، منطق، ریاضی اور جغرافیہ وغیرہ سائنسی علوم کے ماہر تھے اور ان میں سے کچھ کی دینی حیثیت بھی مُسَلَّم تھی، جن میں امام غزالیؒ کا نام قابلِ ذکر ہے، جبکہ ماضی قریب میں ہمیں بے تحاشا قابلِ ذکر مسلمان سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر، اور محققین عالمی اُفق پر نظر آجائیں گے جنہوں نے اپنے متعلقہ شعبے اورسائنس کی دنیا میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
نیز اُمتِ مسلمہ میں بعض اِسْتِثْنائی مثالیں موجود ہیں جن میں بعض ڈاکٹر، محققین، انجینئر، اور سائنسدانوں ہی کو اللہ پاک نے اتنی مقبولیت سے نوازا کہ جنہوں نے پہلے علمائے کرام ، مفتیانِ کرام اور مشائخ کی صحبت اُٹھائی اور پھر انہی حضرات سے اللہ پاک نے اتنا کام لیا کہ وقت کے بڑے بڑے علمائے کرام نے ان سے فیض حاصل کیا ، مثلاً حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے کئی خلفاء دنیاوی شعبوں سے وابستہ تھے اور دینی اور دنیاوی شعبوں کا حسین امتزاج تھے، مگر ان مثالوں سے ہم عمومی طور پر یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے اور نہ ہی کرنا چاہیے کہ دین کی تشریح انجیئیر، پروفیسر، محققین اور سائنسدانوں کے ذمہ ہے اور نہ ہی عمومی سطح پر اس کا اطلاق کرنا چاہیے کہ ایسی پالیساں مرتب کی جائیں کہ آگے آنے والی نسلوں میں یہ اِسْتِثْنائِیَّہ مثالیں عمومیت اختیار کرلیں ۔

انجینئر، سائنس دان، ڈاکٹر وغیرہ اپنے شعبہ میں مہارت پیدا کریں

ہمارے ملکِ عزیز میں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے، یعنی جو انجینئر، پروفیسر، محققین اور سائنسدان حضرات ہیں، بجائے اس کے کہ وہ عالمی سائنسی تحقیق میں اپنا نام روشن کریں اور اپنے سائنسی شعبے میں مہارت حاصل کرکے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوائیں اور اُمت کو درپیش جدیدمسائل کا متبادل سائنسی حل پیش کریں، وہ اپنی ذمہ داریاں تو تندہی سے انجام نہیں دے رہے، بلکہ ان ہی میں سے بعض انجینئر، پروفیسر، محققین اور سائنسدان حضرات دینی مسائل میں اپنی رائے زنی شروع کردیتے ہیں، یعنی آپ کو بہت سارے انجینئر، پروفیسر، محققین اور سائنسدان ایسے ملیں گے کہ جن کو اُن کے اپنے سائنسی شعبے میں تو مہارت حاصل نہیں اور وہ دینی مسائل میں عوامی سطح پر فتویٰ دینا شروع کردیتے ہیں اور اپنے آپ کو دینی اتھارٹی گرداننا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بالکل غلط روش ہے اور امُتِ مسلمہ کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جو اُمت میں گمراہی پھیلی وہ اسی روش سے پھیلی اور انہی لوگوں کی دینی کم علمی، کم فہمی اور تکبر سے اُمت نے بڑے بڑے فتنے دیکھے۔ 
دیکھیے! اگر کوئی انجینئر، پروفیسر، محقق اور سائنسدان کسی خاص شعبے کا ماہر ہے اور اس شعبے سے متعلق شرعی حکم معلوم کرنا ہے تو وہ انجینئر، پروفیسر، محقق اور سائنسدان اس شعبے کی مستند تکنیکی تفصیلات مستند دارالافتاء اور حضرات مفتیانِ کرام کی خدمت میں پیش کرے گا اور پھر یہ حضرات مفتیانِ کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلہ سے متعلق شرعی حکم بیان فرمائیں، یعنی جواز اور عدمِ جواز کا فیصلہ فرمائیں۔ یہاں ایک بات ضرور ذہن میں رہے کہ مفتیانِ کرام فرماتے ہیں کہ کسی عام شخص کو اپنی صوابدید پر جواز اور عدم جواز بیان کرنے کا حق نہیں ہے، لیکن ایک عام آدمی کو مفتی کی طرف سے جواز اور عدمِ جواز کی حکایت بیان کرنے کا حق ہے، خاص طور پر جب وہ شخص کسی سائنسی شعبے کا ماہر ہو اور اُس کو اس سائنسی ٹیکنالوجی کے معاملات اور اس کی اصل حقیقت کا علم اور ادراک ہو، مثلاً کوئی انجینئر، پروفیسر، محقق اور سائنسدان اپنی طرف سے تحقیق کرکے یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کون سی چیز جائز ہے اور کون سی ناجائز۔ البتہ یہ انجینئر، پروفیسر، محقق اور سائنسدان ، حضرات مفتیانِ کرام سے پوچھ کر اس مسئلہ کے حکم کی حکایت بیان کرسکتا ہے۔ 
خلاصہ اس بات کا یہ ہوا کہ انجینئر، پروفیسر، محقق اور سائنسدان کا قطعاً یہ کام اور ذمہ داری نہیں کہ وہ خود فتویٰ دینا شروع کردیں اور کسی چیز کی شرعی حیثیت کی وضاحت میں اپنی رائے زنی شروع کردیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کریں گے، اُن کا یہ عمل ضدین کا اجتماع ہوگا اور اُن کا فتویٰ بھی شرعی طور پر معتبر نہیں ہوگا۔ حضرات علمائے کرام یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ پروفیسروں، انجینئروں، ڈاکٹروں، اور سائنسدانوں سے دینی مسائل نہ پوچھے جائیں، کیونکہ اُن میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ صحیح دینی مسائل میں اُمت کی رہنمائی کرسکیں۔

شرعی مسائل کے استنباط کا حق کس کو ہے؟

دیکھیے! ہمیں کچھ بنیادی سوالات کے جوابات واضح طور پر معلوم ہونے چاہئیں، مثلاً: کیا شریعت میں ’’مفتی مجتہد‘‘ کے علاوہ بھی کوئی شرعی مسائل کا استخراج کرسکتا ہے؟ قرآن وسنت سے مسائل نکال سکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! کیا ’’مفتی مجتہد‘‘ کے علاوہ بھی کسی کے پاس اتنا علمی رسوخ ہوتا ہے کہ وہ شریعت کے مسائل میں اتھارٹی ہو؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ اس بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب بھی ہمیں شریعت سے متعلق کوئی حکم جاننا ہوگا، ہم مستند مفتیانِ کرام سے رجوع کریں گے اور انہی سے پوچھے گئے مسائل کی روشنی میں عمل کریں گے۔
 مستند مدارسِ دینیہ میں دارالافتاء میں جدید مسائل میں مختلف موضوعات پر ٹھوس شرعی تحقیق ہوتی ہے۔ ٹھوس شرعی تحقیق سے مراد یہ ہے کہ اس سائنسی موضوع کے ماہرین سے رجوع کیا جاتا ہے، سائنسی مسئلہ کی ماہیت پر غور کیا جاتا ہے ، شرعی تکییف کی جاتی ہےاور پھر کافی غور و خوض اور تحقیق کے بعد اس مسئلہ پر شرعی حُکم بتایا جاتا ہے۔المختصر، قرآنِ پاک کی تفسیر ہو یا شریعت کے احکامات بتانا، احادیث مبارکہ سے مسائل کا استنباط ہو یا مختلف احادیث کی تطبیق، عوام کو مسائل کا حکم شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے بتانا ہو یا دینی علوم میں غور وتدبر، یہ سب کام حضرات علمائے کرام کی ذمہ داریوں میں سے ہیں اور انہی پر جچتے ہیں کہ وہ اس موضوع کے ماہر ہیں۔
اب اس کے برعکس صورتِ حال پر غور فرمائیے۔ کچھ مدارسِ دینیہ میں بعض صاحبانِ علم یہ ذہن سازی کررہے ہیں کہ آپ خود ہی سائنسی مضمون کے ماہر بن جائیں، خود ہی سائنسی موضوع پر تحقیق کریں، اس پر سائنسی مقالے چھاپیں اور پھر اس سائنسی موضوع پر شرعی حکم بتائیں۔ یہ بھی سراسر غلط سوچ ہے اور غلط طریقہ کار ہے کہ فتویٰ کی بنیاد سائنسی موضوع کے ماہرین سے رجوع کیے بغیر ہی رکھی جائے۔اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس سے معاشرے میں جدید مسائل کے حوالے سے تشکیک پیدا ہوجاتی ہے اور علمائے کرام کی رائے میں اختلاف کی بنیاد پڑتی ہے، کیونکہ ایسے علمائے کرام کی سائنسی بنیاد ہی مضبوط نہیں ہوتی، اور وہ سائنسی شعبے کے ماہر نہیں ہوتے اور اپنے تئیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے سائنسدان اور محقق بن گئے ہیں اور انہوں نے ’’مفتی‘‘ کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا ٹائٹل بھی حاصل کرلیا ہے، لہٰذا اب وہ خود ہی سائنسدان، معاشی ماہر، اور محقق بن گئے ہیں۔ 
الحمدللہ! پاکستان کے بیشتر مدارسِ دینیہ اور جمہور مفتیانِ کرام اس ذہن سازی سے متاثر نہیں ہوئے ہیں، بلکہ راقم نے خود کئی بڑے مستند مدارس اور جید مفتیانِ کرام کے عمل کا مشاہدہ کیا، یہ تمام حضرات الحمدللہ سائنسی شعبے کے ماہرین سے ہی سائنسی مسئلہ کی تکنیکی ماہیت سمجھتے ہیں اور پھر جدید مسائل کا حل اُمت کو پیش کرتے ہیں۔    

مسائل کا متبادل حل دینے میں احتیاط

آج کل نوجوان علمائے کرام کی ایک ذہن سازی یہ کی جارہی ہے کہ مسائل کا متبادل حل دینا علمائے کرام کی لازمی ذمہ داری ہے۔دیکھیے اس میں تو دو رائے نہیں کہ متبادل ہونا چاہیے اور بتانا بھی چاہیے اور بعض جید مفتیان کرام مسائل کا جواب دیتے وقت متبادل بھی بتا دیتے ہیں اورسائل کو نصیحت بھی فرمادیا کرتے ہیں اور ان حضرات میں ہمارے محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ نے اپنے دور میں اکابر اہلِ افتاء کی ایک جماعت کے ذریعہ یہ خدمت انجام دی تھی، جس کے بنیادی خطوط اور خاکے محفوظ ہیں۔ مگر متبادل حل دینے کی آڑ میں ناجائز کو جائز تو قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ 
نیزیہ بھی ضروری ہے کہ متبادل نصوص کے احکامات کے ذیل میں ہونا چاہیے، یعنی مثلاً شراب حرام ہے، زنا حرام ہے، سُود حرام ہے تو کیا مسلمان مفتیانِ کرام کے ذمہ فرض ہے کہ وہ زنا ، شراب، اور سُود کا متبادل دیں؟ بھئی متبادل تو شریعت نے پہلے ہی سے بتا دیا ہے، مثلاً زنا کا متبادل نکاح ہے، شراب کا متبادل دودھ یا کسی پھل کا جوس ہے، اور سُود کا متبادل کاروبار ہے، مگر متبادل ڈھونڈتے وقت یہ کہنا کہ نہیں ہم نے ہر حال میں متبادل دینا ہے اور شریعت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھنا ہے، کسی صورت بھی مناسب نہیں، مثلاً سُود کا متبادل دیتے وقت سُود ہی کی کسی نئی شکل کو جائز قرار دینا کسی صورت بھی قابلِ قبول نہ ہوگا۔ شراب کا متبادل دیتے وقت کسی نئی قسم کی شراب ہی کو جائز قراد دے دینا کسی صورت قابلِ قبول نہ ہوگا۔آپ ہی انصاف فرمائیے کہ کیا اس طرح کےمتبادل قابلِ قبول ہوں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں! لہٰذا متبادل کی تلاش میں مسلمان مفتیانِ کرام پر ہرگز یہ لازم نہیں کہ وہ زبردستی حرام اور ناجائز چیزوں کو جائز و حلال بتلائیں۔
اسی تناظر میں ذیل کے اقتباسات بہت اہم ہیں:
1:’’بہرحال ہمارے ملک میں بڑی ضرورت ہے کہ فقہ اسلامی کی جدید تدوین کے ذریعہ جو قرآن و سنت اور حضرت حق جل ذکرہٗ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے منشا کے مطابق صالحین کے موروثہ اثاثہ کی روشنی میں کی جائے، جدید پیدا شدہ مسائل کا حل تلاش کرکے فیصلہ کردینا چاہیے، تاکہ دینِ اسلام کا مضبوط اور حسین وجمیل قلعہ قیامت تک اعداء اور اغیار کے حملوں سے محفوظ رہے۔ مشکل سب سے بڑی یہ ہے کہ ہم یورپ کے جدید معاشی و اقتصادی نظام اور معاشرتی نظام کو پہلے ہی اپنا لیتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ جوں کا توں یہ پورا نظام اسلام کے اندر فٹ ہوجائے، یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
(دینی مدارس کی ضرورت اور جدید تقاضوں کے مطابق نصاب و نظامِ تعلیم، انتخاب از مقالات محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ، جمع و ترتیب: مولانا محمد انور بدخشانی صاحب مدظلہٗ، صفحہ: ۱۴۲)
2:’’فقہاء کرام نے فرمایا کہ ’’جو آدمی اپنے اہلِ زمانہ سے واقف نہ ہو (یعنی اہلِ زمانہ کے طرزِ زندگی، ان کی معاشرت، ان کے معاشی معاملات اور ان کے مزاج و مذاق سے واقف نہ ہو) تو وہ جاہل ہے۔‘‘ ایک عالم کے لیے جس طرح قرآن و سنت کے احکام سے واقف ہونا ضروری ہے،اسی طرح اس کے لیے زمانہ کے ’’عرف‘‘ اور زمانہ کے حالات سے واقف ہونا بھی ضروری ہے، اس کے بغیر وہ شرعی مسائل میں صحیح نتائج تک نہیں پہنچ سکتا۔حضرت امام محمد بن الحسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں یہ بات وضاحت کے ساتھ ملتی ہے کہ فقہ کی تدوین کے دوران وہ باقاعدہ بازاروں میں جاکر تاجروں کے پاس بیٹھتے، اور ان کے معاملات کو سمجھتے تھے اور یہ دیکھا کرتے تھے کہ کونسے طریقے بازار میں رائج ہیں، ظاہر ہے کہ ان کا مقصد خود تجارت کرنا نہیں تھا، وہ صرف یہ جاننے کے لیے ان تاجروں کے پاس بیٹھتے تھے کہ ان کے کیا طریقے ہیں؟ اور ان کے درمیان آپس میں کیا عرف رائج ہے؟ اس لیے کہ ان چیزوں سے واقفیت ایک عالم اور بالخصوص ایک فقیہ اور مفتی کے فرائض میں داخل ہے کہ جب اس کے بارے میں اس کے پاس سوال آئے تو وہ اس سوال کے پس منظر سے اچھی طرح واقف ہو، اس کے بغیر وہ صحیح نتائج تک نہیں پہنچ سکتا ۔۔۔۔۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ جب کسی علاقے یا معاشرے میں ناجائز کاروبار کی کثرت ہو تو چونکہ عالم اور مفتی صرف فتویٰ جاری کرنے والا نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک داعی بھی ہوتا ہے، اس لیے اس کا کام اس حد پر جاکر ختم نہیں ہوجاتا کہ وہ صرف اتنا کہہ دے کہ فلاں کام ناجائز اور حرام ہے، بلکہ بحیثیت داعی اس کے فرائض میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کام کو ناجائز اور حرام کہنے کے بعد یہ بھی بتائے کہ اس کا متبادل حلال طریقہ کیا ہے؟ وہ متبادل قابلِ عمل بھی ہونا چاہیے اور شریعت کے احکام کے مطابق بھی۔‘‘ (مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ، اسلام اور جدید معیشت وتجارت، ادارۃ المعارف، کراچی)
متبادل حل دینے میں خلطِ مبحث اور متبادل حل دینے میں علماء کرام کا دائرہ کار 
متبادل دینے کی آڑ میں بعض صاحبانِ علم خَلْطِ مَبْحَث کرچکے ہیں۔دیکھیے! متبادل کی ایک بڑی وسیع تعریف ہوسکتی ہے۔اگر شرعی تکییف کرکے یہ بتا دیا جائے کہ سُود حرام ہے اور آپ سُود سے بچیں، تو یہ تو حکم بتانے کے زمرے میں آتا ہے۔اگر یہ بتا دیا جائے کہ آپ سُود کے بدلے تجارت کرلیں تو یہ متبادل دینا کہلائے گا۔لیکن اگر مسائلِ جدیدہ میں متبادل دینے سے مُراد یہ ہے کہ حضرات علمائے کرام اپنے دائرہ کار سے ہی باہر نکل کر کام کریں تو یہ ہر گز مناسب نہ ہوگا، اس کو دو مثالوں سے سمجھتے ہیں:

متبادل حل دینے میں علماء کرام کے دائرہ کار کی پہلی مثال: حرام اجزاء پر مشتمل دوا
 

فرض کریں کہ ایک دوائی ہے جس کو بنانے میں خنزیر یعنی سور کے خلیے استعمال کیے گئے ہیں، اب اس کا حکم بتاتے وقت یہ کہا جائے کہ اس کو استعمال کرنا منع ہے تو یہ حکم بتانے کے زمرے میں آئے گا، جیسا کہ درجِ ذیل ہے:
’’کسی بھی حرام چیز کو بطورِ دوا استعمال کرنا بھی حرام ہے، الا یہ کہ بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو اور مسلمان ماہر دین دار طبیب یہ کہہ دے کہ اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ یقین ہو جائے کہ شفا حرام چیز میں ہی منحصر ہے، اور کوئی متبادل موجود نہیں ہےتو مجبوراً بطورِ دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے، ورنہ نہیں۔‘‘     (فتویٰ نمبر: 144110200078 ، دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن )
 پھر اس کا متبادل دے دیا جائے کہ آپ اس حرام اجزاء والی دوائی کے بجائے فلاں حلال اجزاء والی دوائی استعمال کرلیجئے تو یہ بات بھی عقل میں آتی ہے، مگر یہ مفتیانِ کرام کا دائرہ کار نہیں کہ وہ ہر دوائی سے متعلق تحقیق کریں کہ فلاں دوائی کا متبادل کون کون سی دوائیاں ہیں؟ یہ سائل ہی کے ذمہ ہے کہ وہ حضرات مفتیانِ کرام سے پوچھ پوچھ کر مسلمان ماہر دین دار طبیب سے پوچھ کر متبادل تلاش کرے۔مسئلہ تب شروع ہوتا ہے کہ جب نوجوان مفتیانِ کرام کی ذہن سازی کی جائے اور اُن کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ آپ خودتحقیق کیجیے اورجدید طبی علوم کو سیکھیے اور پھر سیکھ کر اس حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل دیجیے،یعنی نوجوان مفتیانِ کرام بذاتِ خود ایم بی بی ایس MBBS کریں، پھر ایم ڈی M.Dکریں اور پھر کلینیکل پریکٹس کریں اور طبی دواؤں پر لیبارٹری میں تحقیق کریں اور پھر حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل دیں، یعنی مدارسِ دینیہ کے اندر طب کی تحقیق سے متعلق شعبے قائم ہوں، جس کے اندر اس مسئلے پر تحقیق کی جائے اور امت کو نئی دوائی بنا کر اس حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل پیش کیا جائے جو کہ امت کی ضرورت کا حل ہو۔ 
ہماری گزارش ہوگی کہ یہ مسلمان علمائے کرام اور مدارس کی قطعاً ذمہ داری نہیں کہ وہ اس طرح کی تحقیق کریں، بلکہ یہ تو اُن کے دائرہ کار ہی میں نہیں آتا اور جو صاحبانِ علم اس طریقے کی ذہن سازی کررہے ہیں، ان کو خَلْطِ مَبْحَث ہوچکا ہے۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ امتِ مسلمہ کو اس حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل ملنا چاہیے، مگر یہ ذمہ داری کس کی ہے؟ اس کا تعین ضروری ہے۔سب سے پہلے تو یہ مسلمان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا اہتمام کرے کہ مسلمانوں کے لیے حلال اجزاء والی دوائیاں ملک میں درآمد کرے اور عالمی دوا ساز کمپنیوں سے گفت و شنید کرے، تاکہ عالمی دوا ساز کمپنیاں مسلمان ممالک میں حلال اجزاء والی دوائیاں ہی بھیجیں، اس کے لیے مسلمان ممالک او آئی سی کا فورم بھی متحرک کرسکتے ہیں۔ نیز ملک کے اندر حکومتی حلال کمیٹیوں کے ذریعے بھی اس کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ اصولی طور پر تو مسلمان ممالک کو سائنس میں اتنی ترقی کرنی چاہیے کہ وہ خود ایسی دوائیاں ملک کے اندر بنائیں اور یہ مسلمان سائنسدانوں اور محققین کا کام ہے کہ وہ ایسی سائنسی تحقیق کریں جس سے امت کی ضرورت کو پورا کیا جائے اور متبادل حل پیش کرنا مسلمان سائنسدانوں اور اس متعلقہ شعبے کے ماہرین کی ہی ذمہ داری ہے۔

متبادل حل دینے میں علماء کرام کے دائرہ کار کی دوسری مثال: یوٹیوب کی کمائی

متبادل حلال طریقہ بتا تے وقت علمائے کرام کا دائرہ کار کیا ہوگا؟ اس کو ایک اور مثال سے سمجھتے ہیں، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ علمائے کرام کو معاملات کی خبر ہونی چاہیے، مگر اس سے قطعاً یہ مراد نہیں ہے کہ وہ خود ہی ماہر بن جائیں۔ نیز اتنی استعداد حضرات مفتیانِ کرام میں ہونی چاہیے کہ وہ زیرِ نظر مسئلہ کی باریکیوں کو بھی سمجھ سکیں، تاکہ مسئلہ کی شرعی تکییف میں کوئی دشواری پیش نہ آئے، مثلاً اگر ایک سوال دارالافتاء میں آیا کہ یوٹیوب کے اشتہارات سے ہونے والی کمائی کا کیا حکم ہے؟تو اس سوال کے جواب میں تحقیق اور مشاہدے کے بعد حضرات مفتیانِ کرام یوٹیوب کے اشتہارات سے ہونے والی کمائی سے اجتناب کا کہتے ہیں۔
یوٹیوب کے اشتہارات سے ہونے والی کمائی کے سوال کا جواب بتاتے وقت مفتیانِ کرام نے یہ طریقہ کار اختیار کیا کہ سب سے پہلے وہ کمپیوٹر سائنس کے ماہرین سے رجوع کرکے سمجھیں گے کہ یوٹیوب پر اشتہارات کس طریقے سے کام کرتے ہیں، ان اشتہارات پر کس کا کنٹرول ہوتا ہے، یوٹیوب پر جب کوئی مونیٹائیزیشن (اشتہارات وغیرہ سے پیسے کمانا) شروع کرے گا تو اس میں کن کن عوامل کی بنیاد پر اشتہارات چلیں گے، جیسے جغرافیائی محل و قوع، سرچنگ ہسٹری، وغیرہ۔ نیز جب یوٹیوب پر کوئی اکاؤنٹ کھول رہا ہےتو وہ کیا معاہدہ کررہا ہے؟ اس میں کون کون سی بنیادی شقیں ہیں جن کو صارف نے قبول کیا ہے؟ پھرمفتیانِ کرام مختلف قسم کے اشتہارات کی اقسام کو دیکھیں گے،پھر جب کمپیوٹر سائنس کے ماہرین سے رجوع کرنے کے بعد، تحقیق اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ویڈیو بنانے والے کو اس بات کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرضی کے اشتہار چلانے پر یو ٹیوب کو پابند کرے، اور اکثر اوقات یہ اشتہارات غیر شرعی چیزوں پر مشتمل ہوتے ہیں، اور اس کے علاوہ بھی ان اشتہارات میں کئی مفاسد ہوتے ہیں، جیسے میوزک، نامحرم کی تصاویر، اور جاندار کی تصاویروغیرہ ۔ تو ان تمام باتوں کا احاطہ کرنے کے بعد مفتیانِ کرام یوٹیوب کے اشتہارات سے ہونے والی کمائی کا حکم بتائیں گے جو کہ اس سے اجتناب کا ہے۔
اب جب حلال متبادل حل دینے کی بات آئی تو حضرات مفتیانِ کرام یہ کہیں گے کہ سائل کے ذمہ لازمی تھوڑی ہے کہ یوٹیوب کے ذریعے ہی اشتہارات سے کمائی کرے،سائل کو چاہیے کہ وہ کسی اور حلال طریقۂ کاروبار سے کمائی کرلے۔ کوئی بھی مفتیانِ کرام سے یہ توقع نہیں رکھے گا کہ پہلے وہ کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کریں ، پھر کئی سال کمپیوٹر سائنس میں عالمی معیار کی تحقیق کریں اور پھر اس مسئلہ کا جواب دیں ۔نیزکوئی بھی مفتیانِ کرام سے یہ توقع نہیں رکھے گا کہ خود مفتیانِ کرام ہی یو ٹیوب کا متبادل دیں، یعنی یوٹیوب سے ملتا جلتا اسٹریمنگ پلیٹ فارم بنائیں جس میں نہ میوزک ہو، نہ نامحرم کی تصاویر ہوں، نہ جاندار کی تصاویر ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا شرعی محظور ہو،بلکہ اگر کوئی مفتی صاحب ایسا کریں گے تو وہ اپنے دائرہ کار اور حدود سے تجاوز کریں گے، کیونکہ یوٹیوب کا متبادل حل دینا کمپیوٹر سائنسدانوں کے دائرہ کار میں آتا ہے اور یہ اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ متعلقہ محکموں کے ذریعے سے یو ٹیوب جیسے متبادل پلیٹ فارمز کا اجراء کریں جن میں شرعی قباحتیں موجود نہ ہوں۔
جس طریقے سے اگر کوئی سائنسدان ، محقق، پروفیسر اور انجینئر اپنے شعبے کے دائرہ کار سے نکلےگا اور اپنے شعبے سے نکل کر شریعت کی باتوں میں دخل دے گا، قرآن و حدیث کی من مانی تشریح کرے گا، اور خود ہی فقہی احکامات نکالنے شروع کرے گا تو اس سے گمراہی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ بعینہٖ اگر نوجوان مفتیانِ کرام تحقیق کے نام پرخود ہی سائنسدان، محقق، انجینئر اور پروفیسر بن جائیں گے اور سائنس کے شعبے میں رائے زنی کریں گے تو اس کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے گا؟
خلاصہ یہ کہ متبادل بتانا مفتی کی ذمہ داری ہے، لیکن متبادل بنانا نہ صرف یہ کہ اس کے فرائض اور دائرہ کار سے خارج ہے، بلکہ حرام بھی ہے۔
 الحاصل پوری تفصیل کا مقصد یہ ہوا کہ علمائے کرام اور سائنسدانوں کے ذمہ لازم ہےکہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں اور اپنے فرائضِ منصبی نبھائیں، یعنی جو ذمہ داریاں حضرات علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی ہیں وہ اُن پر کاربند رہیں اور جو سائنسدانوں ، محققین، پروفیسر اور انجینئر حضرات کی ذمہ داریاں ہیں، وہ اُن ذمہ داریوں کو پوری تندہی کے ساتھ انجام دیں۔ اسی سے معاشرہ اِفراط وتفریط سے بچے گا اور ترقی کرے گا۔ اگر علمائے کرام اور سائنسدان اپنے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کریں گے تو اسی سے معاشرے میں اَبتری پھیلے گی اور خَلْطِ مَبْحَث پیدا ہوگا۔اللہ پاک امتِ مسلمہ کی ہر قسم کے فتنوں اور گمراہی سے حفاظت فرمائیں، آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین