پیچھے ذکر کی گئی بحث سے معلوم ہوا کہ جب بھی کوئی شخص اُمت کے اتفاقی موقف سے انحراف کرتا ہے تو وہ انحراف کبھی گمراہی ہوتا ہے، البتہ کبھی معاملہ کفر تک بھی جا پہنچتا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اُمت کا اتفاقی موقف کسی ظنی دلیل پر مبنی ہو، جیسے بیس تراویح کا ثبوت یا ایک مجلس کی تین طلاقیں واقع ہونا یا امام مہدیm کا ظہور ہونا، وغیرہ، یہ مسائل ظنی دلائل یعنی خبرِ واحد سے ثابت ہیں، لہٰذا ان مسائل کا اگر کوئی شخص انکار کرتا ہے تو یہ گمراہی ہے، اس لیے کہ اُمت نے جس معنی اورمفہوم کو لیا وہ یقیناً صحیح اور حق ہے، اس کے برخلاف دوسرا مفہوم باطل ہوگا اور اگر اُمت کا اتفاقی موقف کسی دلیل قطعی پر مبنی ہو، یعنی اس کے پیچھے قرآن کریم کی آیت یا حدیث متواتر ہو، جیسے ضروریاتِ دین وغیرہ ۔کیونکہ ضروریاتِ دین سے مراد وہ عقائد اور اعمال ہیں کہ جن کو شروع سے لے کر موجودہ زمانے تک اُمت کے ہر طبقہ اور ہر خاص و عام نے بیان کیا کہ یہ شریعت کا لازمی مسئلہ ہے، مثلاً پانچ نمازوں کا فرض ہونا، رمضان کے روزوں کا فرض ہونا، حج اور زکوٰۃ کا فرض ہونا، طوافِ زیارت کا فرض ہونا، وقوفِ عرفہ کا فرض ہونا، یاجوج ماجوج کا نکلنا اور دیگر بھی بہت سے ضروریاتِ دین ہیں جن کو شیخ الاسلام علی ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی۹۷۴ھ) ہجری میں اپنے فتاویٰ میں ذکر فرمایا ہے اور ان کی تعداد ایک سو بیس کے قریب گنوائی ہے تو اگر کوئی شخص ان ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کرتا ہے تو وہ درحقیقت اُمت کے قطعی عقیدے اورنظریے کا انکار کر رہا ہے اور دین کے کسی بھی قطعی عقیدے کا انکار کفر ہے، کیونکہ ایمان صرف چند چیزوں کی تصدیقِ قلبی کا نام نہیں، بلکہ ایمان تمام ان امور کو دل سے مان لینے کا نام ہے، جن کو نبی کریم a لے کر آئے اور ہم تک وہ یقینی اور قطعی ذرائع سے پہنچے، جیسا کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے، ديکھيے عبارت:
’’والإيمان ہو الإقرار باللسان والتصديق بالجنان وجميع ما صح عن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم من الشرع والبيان کلہ حق.‘‘
لہٰذا جب ایمان دین اسلام کی تمام قطعیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی تمام یقینی چیزوں کو مان لینے سے مکمل ہوتا ہے توان میں سے کسی ایک چیز کا انکار بھی کفر اور گمراہی ہوگا، اسی لیے امت کے علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے تمام ضروریاتِ دین اور قطعیاتِ دین یعنی امت کے تمام اتفاقی قطعی عقائد کو ماننا ضروری ہے، لیکن اسلام سے نکلنے کے لیے کسی ایک قطعی عقیدے کا انکار بھی کافی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بھی امت کے اتفاقی عقیدے اور نظریے کی جب کسی شخص نے مخالفت کی اور اس کا انکار کیا تو اس کا شدت کے ساتھ رد کیا گیا، خصوصاً جبکہ وہ مسئلہ ایسا ہو کہ اس کے انکار سے کفر لازم آتا ہو، جیسے مسیلمہ کذاب نے صرف اس بات کا انکار کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی نہیں ہیں، بلکہ میں بھی نبی ہوں، منکرینِ زکوٰۃ نے نبوت کا انکار نہیں کیا تھا، بلکہ زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کیا تو یہ صرف ایک عقیدے کا انکار ہے، لیکن اس کی بنیاد پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں قتال کیا اور اس فتنے کا قلع قمع کیا، اگرچہ اس کے بدلے میں سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔
اس کے بعدبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی طرزِ عمل رہا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جہمیہ ایک گمراہ فرقہ تھا، جو قرآن کریم کی آیات میں تعارض کو ثابت کرتا تھا، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے اپنی کتابیں پیش کیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کی کتابوں کو دیکھا اور حکم دیا کہ آگ بھڑکائی جائے، چنانچہ آگ بھڑکائی گئی، آپ نے ان کی کتابوں کو بھی آگ میں جلا ڈالا اور ان لوگوں کو بھی آگ میں جلا ڈالا۔ یہ خبر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ میرے پاس آتے تو میں ان کو آگ میں نہ جلاتا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ کا عذاب دینے سے منع فرمایا ہے، البتہ میں ان کو قتل کرتا، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنا دین بدل لے اس کو قتل کر ڈالو۔ اس حدیث پاک میں جس کو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ذکر فرمایا ہے اور یہ سنداً صحیح حدیث ہے، اس میں حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ان لوگوں کے قتل پر اتفاق کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے تھے اور اس کی وجہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہی بیان فرمائی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے دین کو بدل لے اس کو قتل کر ڈالو، اگرچہ یہ حکم خلیفۂ وقت کے ساتھ خاص ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت خلیفہ تھے، اس وجہ سے انہوں نے یہ اقدام کیا، عام رعایا میں سے کسی کو قتل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، لیکن اصولی مسئلہ سمجھ میں آگیا کہ کسی ایک عقیدے کا انکار بھی کفر ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں بھی اسی پر عمل کیا گیا، چنانچہ معتزلہ، خوارج، جبریہ، قدریہ، مرجئہ، جہمیہ اورایسے تمام فرقوں کو گمراہ قرار دیا گیا، ماضی قریب میں بھی جتنے فتنے اور گمراہ اٹھے، ان سب پر صحابہ کرامؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جمہور علمائے کرام نے اتفاقی طور پران پر گمراہ ہونے کا حکم لگایا، چنانچہ آغا خانیوں نے نماز کا انکار کیا، کیونکہ وہ لغوی معنی سے استدلال کرتے ہوئےکہتے تھے کہ نماز کا معنی دعا ہے، اسی طرح قادیانیوں نے نبوت کے ختم ہونے کا انکار کیا اور خاتم النبیین کی آیت میں تاویل کی۔ اسی طرح اسماعیلیوں نے قرآن کریم کی درج ذیل آیتِ مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے روزے کا معنی خاموشی بیان کیا:
’’إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا‘‘ (مريم: ۲۶)
امت کے نزدیک بھی اس آیت میں صوم کا معنی واقعتاً خاموشی ہے، لیکن امت نے دوسری آیتِ مبارکہ میں نصوصِ قطعیہ کی بنا پر صیام کا معنی خاموشی مراد نہیں لیا، بلکہ صبح سے شام تک تین چیزوں یعنی کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جانے کا نام روزہ رکھا۔ اسی طرح روافض اور بوہری فرقہ کے لوگ قطعیاتِ دین کا انکار کرتے ہیں، اس لیے امت کے جمہور علماء کرام یعنی حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ، بریلوی اور اہلِ حدیث مکتب فکر وغیرہ سب نے اس پر اتفاق کیا کہ یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امت کے اتفاقی موقف سے انحراف کبھی گمراہی اور کبھی کفر کا سبب بنتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کا پتہ کیسے چلے گا کہ یہ امت کا اتفاقی عقیدہ ہے یا مختلف فیہ ؟ تو اس سلسلے میں سب سے بڑی دلیل اجماع ہے، اجماع کا مطلب یہ ہے کہ کسی زمانہ کے علماء کرام کا دین کے کسی عقیدے، نظریے اور مسئلے پر اتفاق کر لینا اجماع کہلاتا ہے اور اس اجماع پر مختلف علماء کرام نے کتابیں لکھی ہیں، ان میں سے ایک کتاب ’’الإجماع ‘‘کے نام سے امام ابن منذرؒ (۳۱۹ھ) کی ہے، دوسری کتاب ’’مسائل الإجماع‘‘ کے نام سے امام ابن حزم ظاہریؒ (۴۵۶ھ) کی ہے، تیسری کتاب ’’الإقناع في مسائل الإجماع ‘‘کے نام سےامام ابوالحسن بن قطان فاسیؒ(۶۲۸ھ) کی ہے۔ ان کتب کو آدمی دیکھ سکتا ہے اور ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون سے مسائل اجماعی ہیں، البتہ ان کتب میں کچھ مختلف فیہ مسائل بھی آچکے ہیں، اس لیے اجماعی مسائل کی تعیین میں دقت ِنظر اور وسعتِ مطالعہ ضروری ہے۔پھر اجماعی مسائل میں کچھ تفصیل ہے، وہ یہ کہ اجماع اگر کسی قطعی مسئلے پر ہو اور ہم تک وہ قطعی ذرائع سے ہی پہنچا ہو تو ایسی صورت میں اس کا انکار کفر ہے، جیسے ختم نبوت کا منکر کافر ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اجماع کسی ظنی مسئلے پر ہو، پھر ظنی مسئلے میں بھی دو صورتیں ہیں:
ایک یہ کہ ظنی مسئلے کا اجماع ہم تک قطعی دلائل اور ذرائع سے پہنچا، جیسے ایک مجلس کی تین طلاقوں کا ایک ہونا وغيرہ، ہر زمانہ کے ہزاروں لوگوں نے بیان کیا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہیں۔ اورزمانہ کے اتنے لوگوں کا بیان کرنا کہ جن کا جھوٹ پر جمع ہونا ممکن نہ ہو اس کو تواتر کہتے ہیں اور یہ تواترمسائل کے نقل کرنے کا قطعی ذریعہ ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اجماع کسی ظنی اور مجتہد فیہ مسئلے پر ہو اور ہم تک ظنی ذرائع سے پہنچا ہو، یعنی کسی امام نے نقل کر دیا، پھر اس کو بہت سے لوگوں نے نقل نہیں کیا، بلکہ فرداً فرداً ان کی بات نقل ہوتی آئی، اسی لیے بعض مسائل کے اجماعی ہونےمیں اختلاف بھی ہے، بعض حضرات نے کہا: یہ اجماعی مسئلہ ہے، دوسرے بعض نے کہا: اجماعی نہیں ہے، جیسے مالی جرمانہ لینے کا مسئلہ، وغیرہ، تو ایسے مسئلے کے انکار کو گمراہی نہیں کہا جائے گا، بلکہ اگر کوئی محقق عالم دلائل کی بنیاد پر اس سے اختلاف کرے تو اس کی گنجائش ہے، جیسے علامہ شمس الحق افغانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تعزیرِ مالی کو جائز قرار دیا، کتب ِ فقہ میں اس کی اور بھی نظائر موجود ہیں۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ لفظ اجماع کبھی کسی ایک فرقے یا جماعت کے علماء کا اتفاق بھی کہلاتا ہے، چنانچہ ہدایہ میں ذکر کیے گئے بعض مسائل جن میں ہمارے حنفی حضرات متفق تھے، اس کو اجماع سے تعبیر کیا گیا تو ایسی صورت میں اس کا انکار بھی کفر یا گمراہی نہ ہوگا۔
یہاں ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا امت کے اتفاق کے لیے پوری امت کا اتفاق ضروری ہے؟ تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ یہاں پوری انسانیت مراد نہیں ہے، بلکہ امت کی دو قسمیں ہیں: امتِ اجابت یعنی وہ لوگ جو دائرہ اسلام میں داخل ہو گئےاور امتِ دعوت یعنی کفار اور غیر مسلم لوگ یعنی یہود ونصاریٰ، ہندو اور سکھ وغیرہ۔ یہاں امتِ دعوت تو مراد بالکل نہیں ہے، بلکہ یہاں امتِ اجابت مراد ہے، پھر امتِ اجابت میں بھی پوری امتِ مسلمہ مراد نہیں، بلکہ ان کی اکثریت مراد ہے، جس پر قرآن و سنت میں بہت سے دلائل موجود ہیں، چنانچہ قرآنِ کریم کی آیت مبارکہ ہے:
’’وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدَی وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِيْرًا‘‘ (النساء: ۱۱۵)
اس آیتِ مبارکہ میں باتفاقِ مفسرین کافرکو خطاب نہیں ہے، بلکہ صرف مسلمانوں کو ہی خطاب ہے کہ جو جمہور مومنین سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اختیار کرتا ہے تو اس پر حکم لگایا گیا کہ ہم اس کو اس کے سپرد کر دیں گے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں سے یہ شخص گمراہ شمار ہو گا، جس کے لیے جہنم کی سزا بیان فرمائی گئی۔
اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں اُمت کی جماعت اور اکثریت کو لازم پکڑنے کی اتنی تاکید کی گئی ہے، یہاں تک کہ علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر تواترِ معنوی کا حکم لگایا، چنانچہ سنن ابن ماجہ کی روایت پیچھے گزر چکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اُمت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی تو یہاں بھی اکثریت مراد ہے، پوری امت مراد نہیں ہے، کیونکہ پوری امت ایک ہی نظریے پر قائم نہیں رہ سکتی، اسی لیے ترمذی کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اُمت کےتہتر(۷۳) فرقے بنیں گے اور سارے جہنم میں جائیں گے، سوائے ایک فرقہ کے اور یہ وہ فرقہ ہوگا جو میرے اور میرے صحابہؓ کے راستے پہ چلے گا، اس سے معلوم ہوا کہ بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے، ایک فرقہ جنت میں جائے گا۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہاں تو امت کی اکثریت جہنم میں جانے والوں کی بتائی گئی تو اس کا جواب یہ کہ جنت میں جانے والا ایک فرقہ اپنی تعداد کے اعتبار سے امتِ مسلمہ کی اکثریت پر مشتمل ہوگا، دیگر فرقوں کی مجموعی تعداد نجات پانے والے فرقہ سے کافی کم ہوگی، چنانچہ چودہ سو سال کی تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ اہل السنہ والجماعہ کی تعداد سے کم رہی ہے۔ جماعت کو لازم پکڑنے کی تائید ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، جس کو امام ابنِ ماجہؒ نے ذکر فرمایا ہے، وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’إن أمتي لا تجتمع علی ضلالۃ، فإذا رأيتم اختلافا، فعليکم بالسواد الأعظم۔‘‘
یعنی میری اُمت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی، پس جب تم میری اُمت میں اختلاف پاؤ تو اکثریت کو لازم پکڑو۔ یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، مگر اس کی دیگر احادیث سے تائید ہوتی ہے، اس میں سوادِ اعظم سے مراد امت کی بڑی جماعت ہے، چنانچہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مشکاۃ شریف کی شرح ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں سوادِ اعظم کی تشریح کرتے ہوئے اکثر مسلمان مراد لیے ہیں:
’’(اتبعوا السوادَ الأعظمَ) : يعبر بہٖ عن الجماعۃ الکثيرۃ، والمراد ما عليہ أکثر المسلمين۔‘‘
ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ جنت کے بیچ میں وہ خوشی سے رہے تو اس کو چاہیے کہ جماعت کو لازم پکڑے، بے شک شیطان ایک فرد کے ساتھ ہوتا ہے، اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جماعت سے جمہور صحابہؓ، تابعین اور سلف صالحین مراد ہیں اور فردِ واحد سے مراد وہ شخص ہے جو جماعت سے ہٹ کر علیحدہ رائے رکھتا ہو، دیکھیے عبارت:
’’(فليلزم الجماعۃ) أي: السواد الأعظم وما عليہ الجمہور من الصحابۃؓ والتابعين والسلف الصالحين، فيدخل فيہ حبہم وإکرامہم دخولًا أوليًا (فإن الشيطان مع الفذ)، بفتح الفاء وتشديد الذال المعجمۃ أي مقارن للفرد الذي تفرد برأيہٖ۔‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’عن أسامۃ بن شريک، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: ’’يد اللہ علی الجماعۃ، فإذا شذ الشاذ منہم اختطفہ الشيطان کما يختطف الذئب الشاۃ من الغنم۔‘‘
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جماعت سے علیحدہ ہونے والے شخص کو شیطان اُچک لیتا ہے، جیسا کہ ریوڑ سے علیحدہ ہونے والی بکری کو بھیڑیا اُچک لیتا ہے۔‘‘
مستدرک حاکم کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لا يجمع اللہ ہٰذہ الأمۃ علی الضلالۃ أبدا، وقال: يد اللہ علی الجماعۃ، فاتبعوا السوادَ الأعظمَ؛ فإنہٗ من شذ شذ في النار۔‘‘
ترجمہ: ’’ اللہ تعالیٰ اس اُمت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں فرمائے گا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے، لہٰذا تم اکثریت یعنی اُمت کے بڑے گروہ اور جماعت کا اتباع کرو، کیونکہ جو شخص جماعت سے علیحدگی اختیار کرتا ہے، وہ اکیلا آگ میں داخل ہو گا۔‘‘
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ِ مبارکہ میں جماعت کو لازم پکڑنے اور اکثریت کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ امام سرخسی رحمہ اللہ نے معنی کے اعتبار سے ایسی روایات کے متواتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے، متواتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی روایات کوبیان کرنے والے اتنے راوی ہیں کہ ان کا جھوٹ پر جمع ہونا ممکن نہیں، چنانچہ امام سرخسی رحمہ اللہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
’’قال: ما راٰہ المسلمون حسنا فہو عند اللہ حسن وما راٰہ المسلمون قبيحا، فہو عند اللہ قبيح والآثار في ہٰذا الباب کثيرۃ تبلغ حدَ التواتر، لأن کل واحد منہم إذا روي حديثا في ہٰذا الباب سمعہٗ في جمع ولم ينکر عليہ أحد من ذٰلک الجمع، فذٰلک بمنزلۃ المتواتر۔‘‘
اگر کوئی یہ کہے کہ یہاں انتظامی حوالے سے اُمت کی اکثریت مراد ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکثر احادیث میں بغیر کسی تفصیل اور صراحت کے جمہور امت کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور عقیدے کا معاملہ انتظامی معاملات کی بنسبت زیادہ سخت ہے، لہٰذا جب دنیوی امور میں جماعت کی اتباع کا حکم ہے تو دینی عقائد ونظریات میں بدرجہ اولیٰ یہ حکم ہوگا۔ نیز آج اُمت کی اکثریت چار مذاہب یعنی حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنا بلہ میں منحصر ہے، چنانچہ اگر آج امت کی تعداد کا سروے کیا جائے تو اکثریت ان چار مذاہب میں داخل نظر آئے گی، لہٰذا ان چار مذاہب کے اتفاقی عقائد ونظریات سے خروج اختیار کرنا کسی طرح بھی گمراہی سے کم نہیں۔
پیچھے ذکر کی گئی بحث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی عقیدے اور مسئلے پر جمہور اُمت کا اتفاق ہوتو اس کے خلاف آنے والی حدیث کو پیچھے ذکر کی گئی وجوہ میں سے کسی وجہ کی بنا پر چھوڑا جائے گا، اسی اصول کے پیشِ نظر اُمت نے بعض علمائے کرام کے شاذ اور نادر اقوال اور نظریات کو قبول نہیں کیا، بلکہ ان کو خلاف ِ شریعت قرار دیا، جن میں سے چند ایک اقوال بطور مثال درج ذیل ہیں:
۱- امام ابن جریج ؒ کے نزدیک متعہ کا جواز
۲-امام سعید بن مسیبؒ کے نزدیک ہمبستری کے بغیر حلالہ کا جواز
۳-امام ابن تیمیہؒ اور علامہ ابن قیم ؒ کے نزدیک تین طلاق کا ایک ہونا ۔
۴-امام اعمشؒ کے نزدیک موسیقی کا جائز ہونا۔
۵-اہلِ مدینہ کے نزدیک وطی فی الدبر کا جائز ہونا۔
۶-امام داود ظاہریؒ کے نزدیک بالغ آدمی کے لیےرضاعت کا جائز ہونا۔
۷-امام شافعی ؒ کی طرف منسوب جان بوجھ کر تسمیہ پڑھے بغیر ذبیحہ کا حلال ہونا۔
۸-امام اعمشؒ، ابومجلزؒ، حکم بن عتیبہؒ اور معمر بن راشدؒ کے نزدیک سورج کے طلوع ہونے تک سحری کھانے کا جائز ہونا۔
۹-امام محمد بن جریر طبریؒ اور دیگر بعض علمائے عرب کےنزدیک پاؤں پر مسح کا جائز ہونا۔
۱۰-امام ابن حزم ظاہریؒ اور دیگر اہلِ ظواہر کے نزدیک اگر کوئی شخص پانی میں پیشاب کر دے اور دوسرا شخص اس پانی سے وضو کرے تو یہ جائز ہے، کیونکہ حدیث میں اسی شخص کے وضو وغسل کرنے کو منع قرار دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ کتبِ فقہ میں اس طرح کے اقوال کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں، ان میں سے بعض کو حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’عمدۃ الأثاث في الطلقات الثلاث‘‘ میں اور حضرت مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مقالہ’’’’فقہ‘‘حدیث کی نظر میں اور مذہبِ ظاہریہ پر ایک نظر!‘‘ میں بھی ذکر کیا ہے، امت نے ان سب اقوال کو رد کر دیا، کیونکہ یہ اقوال قرآن وسنت کی صریح نصوص کے خلاف تھے، اسی لیے جمہور علمائے کرام نےان شاذ اور نادر اقوال کے رد میں کتابیں اور رسائل لکھے، تاکہ امت اس گمراہی سے بچ سکے۔
جب ان کبار علمائے کرام کے اقوال کی تردید کی گئی آج کے دور میں کسی شخص کا امت کے اتفاقی عقیدے کے خلاف کوئی نظریہ یا عقیدہ قائم کرتا ہے تو اس کا یہ عقیدہ اور نظریہ بدرجہ اولیٰ رد ہوگا، لیکن افسوس صد افسوس! آج نام نہاد اسلامی اسکالرز اور جدید تعلیم یافتہ لوگ قرآن کی کسی آیت یا خبر واحد درجے کی کسی حدیث کی بنا پر شدومد کے ساتھ ایک نظریہ قائم کرتے ہیں اور پھر اس نظریہ کی بنا پر پوری امت کی تردید کرتے ہیں، العیاذ باللہ! سوال یہ ہے کہ کیا خبرواحد درجے کی ان احادیث کے معنی کو چودہ سو سال کی پوری امت کے علماء نے غلط سمجھا اور صرف اسی ایک شخص کو اس کا معنی سمجھ میں آیا؟ حالانکہ امت کے علماء اپنے علم وتقویٰ اور عقل ودانش میں آج کے اسکالرز سے بڑھے ہوئے تھے۔یادرکھیے! اگر ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق قرآن وسنت کا معنی بیان کرنے میں آزاد ہے تو پھر آغاخانی، قادیانی، بوہری، اسماعیلی اور ان جیسے دیگر فرقوں پر کفر کا حکم لگانے کا کیا جواز ہوگا؟ لہٰذا خدارا! امت کے اتفاقی عقائد ونظریات پر قائم رہ کر اپنے آپ کو گمراہی سے بچائیے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین ۔