بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حفظ کرانے کی خاطر بچوں کو مارنا، ان کو زنجیر سے باندھنا


سوال

کیا حفظ کرانے کی خا طر بچوں کو زنجیر سے باندھنا جائز ہے؟

جواب

بچوں کی تعلیم وتربیت میں نرمی اور محبت کا انداز اختیار کرنا چاہیے، بے جا مار پیٹ  یا زنجیر وغیرہ سے باندھنے سے بچے  ضدی اور ڈھیٹ ہوجاتے ہیں،پھر ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا،  اور زیادہ مارنا اور سختی کرنا  تعلیم وتربیت کے لیے مفید بھی نہیں، بلکہ نقصان دہ ہے،  ایک تو یہ کہ اس سے  بچہ کے  اعضاءکمزورہوجاتے ہیں، دوسرایہ کہ ڈرکے مارے سارا  پڑھا لکھا بھو ل جاتے ہیں،تیسرایہ کہ جب پٹتے پٹتے عادی ہوجاتے ہیں  تو بے حیا  بن جاتے ہیں،  پھرمار  سے ان پرکچھ اثر بھی نہیں ہوتا، اور اس کے مقابلے میں نرمی اور محبت  اور بسا اوقات حوصلہ افزا ئی  کے لیےانعام دینےکا طریقہ زیادہ سود مند ہےاور اگر ضرورت کے وقت سزا دینے کی بھی ضرورت ہوتو تدریجاً سزا دے مثلاً: (1) ملامت کرنا (2) ڈانٹنا، (3) کان کھینچنا،(4)  ہاتھ سے مارنا وغیرہ۔

باقی  حفظ کرانے کے لیے بچوں کو زنجیر وغیرہ سے باندھنے سے احتراز کرنا چاہیے، اگر   تعلیم وتربیت کی غرض سے  کبھی سزا دینے کی ضرورت   پڑ جائے تو اس کے لیے  درج ذیل شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے:

1۔۔   بچوں کے والدین سے اس کی اجازت لی ہو۔

2۔۔  سزا سے مقصود تنبیہ و تربیت ہو، غصہ یا انتقام کے جذبہ کی تسکین نہ ہو۔

3۔۔ ایسی سزا شرعاً ممنوع نہ ہو۔

4۔۔ غصہ کی حالت میں نہ مارا جائے، بلکہ جب غصہ اتر جائے تو مصنوعی غصہ کرتے ہوئے سزا دے۔

5۔۔ بچوں کی طبیعت اس کی متحمل ہو، یعنی بچوں کو ان کی برداشت سے زیادہ نہ مارے۔

6۔۔  مدرسہ کے ضابطہ کی رو سے اساتذہ کو اس طرح کی تادیب کی اجازت ہو۔

7۔۔ ہاتھ سے مارے، لاٹھی ، ڈنڈا، کوڑے وغیرہ سے نہ مارے، اگر بالغ ہو تو بقدر ضرورت لکڑی سے بھی مار سکتا ہے  بشرطیکہ برداشت سے زیادہ نہ ہو۔

8۔۔ ایک وقت میں تین سے زیادہ ضربات نہ مارے، اور نہ ہی ایک جگہ پر تینوں ضربات مارے، بلکہ تین ضربات متفرق جگہوں پر مارے۔

9۔۔  سر، چہرے اور شرم گاہ پر نہ مارے۔

10۔۔     بچہ تادیب کے قابل ہو، اتنا چھوٹا بچہ جو تادیب کے قابل نہ ہو اس کو مارناجائز نہیں ہے۔

11۔۔    ایسی سزا  جس سے ہڈی ٹوٹ جائے یا جلد پھٹ جائے یا جسم پر سیاہ داغ پڑجائے، یا دل پر اس کا اثر ہو ، شرعاً جائز نہیں ہے۔   

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجوز ضرب ولد الحر بأمر أبيه، أما المعلم فله ضربه؛ لأن المأمور يضربه نيابةً عن الأب لمصلحته، والمعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه لمصلحة التعليم، وقيده الطرسوسي بأن يكون بغير آلة جارحة، وبأن لا يزيد على ثلاث ضربات، ورده الناظم بأنه لا وجه له، ويحتاج إلى نقل، وأقره الشارح، قال الشرنبلالي: والنقل في كتاب الصلاة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة، ولا يزيد على ثلاث ضربات".

(6/ 430، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع، فروع، ط: سعید)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

" للمعلم ضرب الصبي الذي يتعلم عنده للتأديب. وبتتبع عبارات الفقهاء يتبين أنهم يقيدون حق المعلم في ضرب الصبي المتعلم بقيود منها:

أ - أن يكون الضرب معتاداً للتعليم كمًّا وكيفاً ومحلاً، يعلم المعلم الأمن منه، ويكون ضربه باليد لا بالعصا، وليس له أن يجاوز الثلاث،  روي أن النبي عليه الصلاة والسلام قال لمرداس المعلم رضي الله عنه: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك.

ب - أن يكون الضرب بإذن الولي، لأن الضرب عند التعليم غير متعارف، وإنما الضرب عند سوء الأدب، فلا يكون ذلك من التعليم في شيء، وتسليم الولي صبيه إلى المعلم لتعليمه لايثبت الإذن في الضرب، فلهذا ليس له الضرب، إلا أن يأذن له فيه نصاً. ونقل عن بعض الشافعية قولهم: الإجماع الفعلي مطرد بجواز ذلك بدون إذن الولي.

ج - أن يكون الصبي يعقل التأديب، فليس للمعلم ضرب من لايعقل التأديب من الصبيان، قال الأثرم: سئل أحمد عن ضرب المعلم الصبيان، قال: على قدر ذنوبهم، ويتوقى بجهده الضرب وإذا كان صغيراً لا يعقل فلا يضربه.

(13/ 13،  تعلیم وتعلم ، الضرب للتعلیم، ط: دارالسلاسل، کویت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201230

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں