عرفہ کا روزہ کس کے مطابق رکھنا چاہیے، اپنے ملک کے مطابق یا سعودی عرب کے مطابق؟ برائےکرم حدیث کے حوالے سے جواب عنایت فرمائیں!
احادیثِ مبارکہ میں یومِ عرفہ (یعنی 9 ذی الحجہ) کے روزے کی فضیلت بیان کی گئی ہے. حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
''صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ ''.
(مسلم:1162،ابوداؤد:2425،ترمذی:749،ابن ماجه: 1730، احمد:22530)
ترجمہ:مجھے اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عرفہ کے روزے رکھنے کی صورت میں گزشتہ سال اور اگلے سال کے گناہ بخش دے گا۔
نو(۹)ذی الحجہ کو ’یومِ عرفہ‘کہنے کی فقہاء نے تین وجوہات بیان کی ہیں:
(1) حضرت ابراہیم کو آٹھ (۸) ذی الحجہ کی رات خواب میں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کوذبح کر رہے ہیں، تو ان کو اس خواب کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے یا نہ ہونےمیں کچھ تردد ہوا، پھرنو (۹) ذی الحجہ کو دوبارہ یہی خواب نظرآیا تو ان کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سےہی ہے، چوں کہ حضرت ابراہیم کویہ معرفت اور یقین نو (۹)ذی الحجہ کو حاصل ہوا تھا، اسی وجہ سے نو(۹) ذی الحجہ کو ’یومِ عرفہ‘ کہتے ہیں۔
(2) نو ذی الحجہ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نےحضرت ابراہیم علیہ السلام کوتمام "مناسکِ حج" سکھلائے تھے، مناسکِ حج کی معرفت کی مناسبت سے نو (۹)ذی الحجہ کو ’یومِ عرفہ‘ کہتے ہیں۔
(3) نو(۹) ذی الحجہ کو حج کرنے والے حضرات چوں کہ میدانِ عرفات میں وقوف کے لیے جاتے ہیں،تو اس مناسبت سے نو (۹)ذی الحجہ کو "یومِ عرفہ" بھی کہہ دیتے ہیں۔
مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ تسمیہ کے اعتبار سے’یومِ عرفہ‘کوصرف وقوفِ عرفہ کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف وجوہات کی بنا پر (۹)ذی الحجہ کادوسرا نام ہے، لہٰذا یہ دن ہر ملک میں اپنی تاریخ کے اعتبار سے ہوگا،یعنی دیگر ممالک میں جس دن نو (۹) ذی الحجہ ہوگی وہی دن ’یومِ عرفہ ‘ کہلائے گا، خواہ اس دن سعودی عرب میں یومِ عرفہ نہ ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمان "یومِ عرفہ" کا روزہ سعودی عرب کی تاریخ کے حساب سے رکھنے کے پابند نہیں ہیں، سعودی عرب کے مسلمان اس دن روزہ رکھیں جب ان کے یہاں 9 ذی الحجہ ہو، اور دوسرے ممالک کے مسلمان اس دن روزہ رکھیں جب ان کے یہاں 9 ذی الحجہ ہو، البتہ پاکستان اور وہ مشرقی ممالک جو سعودی عرب سے ایک تاریخ پیچھے ہوتے ہیں، وہاں کے مسلمانوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ آٹھ اور نو ذوالحجہ دونوں دن روزہ رکھ لیا کریں، کیوں کہ عشرہ ذوالحجہ کے ہر روزے کی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے، اور ان ممالک کے لوگوں کے لیے اس دن روزہ رکھنے میں کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:
عرفہ کے دن کا روزہ کس ملک کے حساب سے ہوگا؟
البناية شرح الهداية - (4 / 211):
"وإنما سمي يوم عرفة؛ لأن جبريل صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ علم إبراهيم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المناسك كلها يوم عرفة، فقال: أعرفت في أي موضع تطوف؟ وفي أي موضع تسعى؟ وفي أي موضع تقف؟ وفي أي موضع تنحر وترمي؟ فقال: عرفت؛ فسمي يوم عرفة."
تبيين الحقائق وحاشية الشلبي - (2 / 23):
"قَوْلُهُ: أَيْ تَفَكَّرَ أَنَّ مَا رَآهُ مِنْ اللَّهِ) أَيْ أَمْ مِنْ الشَّيْطَانِ؟ فَمِنْ ذَلِكَ سُمِّيَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، فَلَمَّا رَأَى اللَّيْلَةَ الثَّانِيَةَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ اللَّهِ؛ فَمِنْ ثَمَّ سُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَلَمَّا رَأَى اللَّيْلَةَ الثَّالِثَةَ هَمَّ بِنَحْرِهِ؛ فَسُمِّيَ يَوْمَ النَّحْرِ، كَذَلِكَ فِي الْكَشَّافِ."
العناية شرح الهداية - (3 / 452):
"فَلَمَّا أَمْسَى رَأَى مِثْلَ ذَلِكَ ، فَعَرَفَ أَنَّهُ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى ؛ فَمِنْ ثَمَّ سُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ ... وَإِنَّمَا سُمِّيَ يَوْمُ عَرَفَةَ بِهِ؛ لِأَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَّمَ إبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا يَوْمَ عَرَفَةَ، فَقَالَ لَهُ : أَعَرَفْت فِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَطُوفُ؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَسْعَى؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَقِفُ؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَنْحَرُ وَتَرْمِي؟ فَقَالَ عَرَفْت، فَسُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ، وَسُمِّيَ يَوْمُ الْأَضْحَى بِهِ؛ لِأَنَّ النَّاسَ يُضَحُّونَ فِيهِ بِقَرَابِينِهِمْ."
تفسير البغوي - (7 / 48):
"أمر في المنام أن يذبحه، وذلك أنه رأى ليلة التروية كأن قائلاً يقول له: إن الله يأمرك بذبح ابنك هذا، فلما أصبح روی في نفسه أي: فكر من الصباح إلى الرواح أمِنَ الله هذا الحلم أم من الشيطان؟ فمن ثم سمي يوم التروية، فلما أمسى رأى في المنام ثانيًا، فلما أصبح عرف أن ذلك من الله عز وجل؛ فمن ثم سمي يوم عرفة."
الإنصاف - (3 / 244):
"سمي يوم عرفة؛ للوقوف بعرفة فيه، وقيل: لأن جبريل حج بإبراهيم عليه الصلاة والسلام، فلما أتى عرفة، قال: عرفت، قال: عرفت، وقيل: لتعارف حواء وآدم بها."
المغني - ابن قدامة - (3 / 112):
"فأما يوم عرفة فهو اليوم التاسع من ذي الحجة، سمي بذلك؛ لأن الوقوف بعرفة فيه، وقيل: سمي يوم عرفة؛ لأن إبراهيم عليه السلام أري في المنام ليلة التروية أنه يؤمر بذبح ابنه، فأصبح يومه يتروى هل هذا من الله أو حلم؟ فسمي يوم التروية، فلما كانت الليلة الثانية رآه أيضاً، فأصبح يوم عرفة، فعرف أنه من الله؛ فسمي يوم عرفة، وهو يوم شريف عظيم، وعيد كريم، وفضلة كبير، وقد صح عن النبي صلى الله عليه و سلم أن صيامه يكفر سنتين."
تبيين الحقائق وحاشية الشلبي - (1 / 321):
"قال - رحمه الله - :(ولا عبرةباختلاف المطالع) وقيل: يعتبر، ومعناه أنه إذا رأى الهلال أهل بلد ولم يره أهل بلدة أخرى يجب أن يصوموا برؤية أولئك كيفما كان على قول من قال: لا عبرة باختلاف المطالع، وعلى قول من اعتبره ينظر فإن كان بينهما تقارب بحيث لا تختلف المطالع يجب، وإن كان بحيث تختلف لا يجب، وأكثر المشايخ على أنه لا يعتبر حتى إذا صام أهل بلدة ثلاثين يوماً وأهل بلدة أخرى تسعة وعشرين يوماً يجب عليهم قضاء يوم، والأشبه أن يعتبر؛ لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم، وانفصال الهلال عن شعاع الشمس يختلف باختلاف الأقطار، كما أن دخول الوقت وخروجه يختلف باختلاف الأقطار، حتى إذا زالت الشمس في المشرق لايلزم منه أن تزول في المغرب."
بدائع الصنائع - (2 / 83):
"هذا إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع، فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر؛ لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف، فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر."
العرف الشذي للعلامةالكشميري (2/ 217):
"وقال الزيلعي شارح الكنز : إن عدم عبرة اختلاف المطالع إنما هو في البلاد المتقاربة لا البلاد النائية ، وقال كذلك في تجريد القدوري ، وقال به الجرجاني ، أقول : لا بد من تسليم قول الزيلعي، وإلا فيلزم وقوع العيد يوم السابع والعشرين أو الثامن والعشرين أو يوم الحادي والثلاثين أو الثاني والثلاثين؛ فإن هلال بلاد قسطنطنية ربما يتقدم على هلالنا بيومين ، فإذا صمنا على هلالنا، ثم بلغنا رؤية هلال بلاد قسطنطنية يلزم تقديم العيد ، أو يلزم تأخير العيد إذا صام رجل من بلاد قسطنطنية ثم جاءنا قبل العيد، ومسألة هذا الرجل لم أجدها في كتبنا ، وظني أنه يمشي على رؤية من يتعيد ذلك الرجل فيهم ، وقست هذه المسألة على ما في كتب الشافعية : من صلى الظهر ثم بلغ في الفور بموضع لم يدخل فيه وقت الظهر إلى الآن أنه يصلي معهم أيضاً، والله أعلم وعلمه أتم ، وكنت قطعت بما قال الزيلعي، ثم رأيت في قواعد ابن رشد إجماعاً على اعتبار اختلاف المطالع في البلدان النائية ، وأما تحديد القرب والنائي فمحمول إلى المبتلى به، ليس له حد معين وذكر الشافعية في التحديد شيئاً."
فقط واللہ اعلم
fatwa_number : 144212200813
darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town