بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

darulifta

 

زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ


question

میری ایک بیوی ،3 بیٹے اور ایک بیٹی ہے، میں اپنی زندگی میں  اپنی جائیداد  ان کے درمیان تقسیم کرنا چاہتاہوں،  مجھے ڈر ہے کہ میری موت کے بعد میرے بیٹے ان کو نہیں دیں گے، زندگی میں ورثاء کو دینا تو گفٹ ہوگا، لیکن میں ان  کو ان کے  میراث کے حصے کے مطابق دینا  چاہتاہوں، میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ جو کہ غیر شادی شدہ ہے رہنا چاہتاہوں، تو میں اپنی ضرورت کےلیے اپنی ملکیت سے کتنی رقم رکھ سکتاہوں؟

answer

صورت مسئولہ میں سائل اگر اپنی زندگی میں اولاد  کے درمیان جائیداد تقسیم کرنے کا خواہشمند ہے تو اس کا  شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی ملکیت سے اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے ، یہ سائل کی صواب دید پر موقوف ہے کہ وہ اپنے لیے کتنا مال رکھنا چاہتاہے، اس سلسلہ میں شرع کی طرف سے کوئی مقدار مقرر نہیں ہے، اپنا حصہ الگ کرنے کے بعد ، کل مال کے آٹھویں حصے کے بقدر  اپنی بیوی کو دے دے اور بقیہ  مال  اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے  گی،  البتہ  کسی بیٹے   یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بناء پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے ،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر،   یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی گنجائش  ہے، زندگی میں میراث کے حصے کے اعتبار سے تقسیم نہ کرے، کیوں کہ  زندگی میں برابری کا حکم ہے۔

حدیث مبارک میں ہے:

" وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم."

(مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:

"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90] ...وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة."

[كتاب الهبة، ج:6ص:127، ط:دار الكتب العلمية]

فقط واللہ اعلم


fatwa_number : 144310101123

darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town



search

ask_question

required_question_if_not_exists_then_click

ask_question