بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

darulifta

 

حالتِ حمل میں طلاق دینے اور بیوی کانام لیے بغیر طلاق دینے کاحکم


question

میری ایک دوست  ہے ، اس کے شوہر نے اس کانام لیے بغیراس کوغصے کی حالت میں طلاق دے دی ،اور اس وقت شوہر کی بہن اس کمرے میں اُن دونوں کے ساتھ  تھی اور کوئی ساتھ نہیں تھا،بیوی آٹھ ماہ کی حمل سے ہے،اب سوال یہ ہے کہ کیااس طرح طلاق ہوجاتی ہے یانہیں؟

answer

واضح رہے کہ طلاق کے واقع ہونے لیے بیوی کانام لیناضروری نہیں ہے بلکہ بیوی کی طرف طلاق کی نسبت  کرنابھی کافی ہے،نیز حالتِ حمل میں دی جانے والی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے ،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کی دوست کے شوہر نے اپنی بیوی کوجوکہ آٹھ ماہ کی حمل سے ہے طلاق دے دی تو یہ طلاق واقع ہوگئی اگرچہ  اس نے اپنی بیوی کانام نہیں لیا،باقی کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں ؟ اورکیارجوع کی گنجائش ہے   یانہیں؟ اس کے جاننے کےلیےمندرجہ ذیل دوباتوں کی وضاحت ارسال کیجیے:

1۔شوہر نے طلاق کے کیاالفاظ کہے تھے؟

2۔ شوہر نے طلاق کے الفاظ  کتنی دفعہ کہے تھے؟

فتاوٰی شامی میں ہے:

"ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها."

(كتاب الطلاق، باب الصريح، 250/3، ط: سعید)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن ابن عمر، أنه طلق امرأته وهي حائض، فذكر ذلك عمر للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: مره فليراجعها، ثم يطلقها وهي طاهر، أو حامل."

(كتاب الطلاق، باب الحامل كيف تطلق،1/ 651 ،652، ط: دار إحياء الكتب العربية)

الدر المختار میں ہے:

"(وحل طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل (عقب وطء) لأن الكراهة فيمن تحيض لتوهم الحبل وهو مفقود هنا."

(كتاب الطلاق، 232/3، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


fatwa_number : 144401101381

darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town



search

ask_question

required_question_if_not_exists_then_click

ask_question