بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

darulifta

 

شوہر طلاق دے کر مکر جائے تو بیوی کے لیے کیا حکم؟


question

میری شادی فورس میرج ہے، شادی کے کچھ ٹائم بعد ہی لڑائی جھگڑے ہونا شروع ہوگئے تھے، شوہر مارتا بھی تھا، گالیاں اور مار پیٹ ہوتی تھی، میں نے والدین کو بھی بتایا کوئی، رسپانس نہیں ملا، ایک دن میں نے آزاد کرنے کا مطالبہ کیا اور انہوں نے مجھے تین بارکہا کہ" میں تمھیں آزاد کرتا ہوں "،  اس وقت کوئی لڑائی نہیں  تھی،  اس وقت میں نے نیت پوچھی تو کہا کہ تم اپنے گھر جاکر رہو اور میں یہاں، لیکن اب اس بات سے مکر گئے ہیں، سب کے سامنے کہ میں نے ایسا نہیں کہا،  مجھے اس پر فتوی دیں۔

answer

واضح رہے کہ لفظِ ’’آزاد‘‘ ہمارےعرف کے اعتبار سے طلاق کا صریح لفظ بن چکا ہے، اس سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، تاہم چوں کہ لفظِ ’’آزاد‘‘ سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے اور ایک بائن طلاق کے بعد دوسری بائن طلاق واقع نہیں ہوتی ، اس لیے  لفظِ ’’آزاد‘‘  تین بار  کہنے کے باوجوداس سے  ایک ہی طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ کے شوہر نے اسے   تین مرتبہ  یہ کہا کہ : " میں تمھیں آزاد کرتا ہوں "تو اس سے سائلہ پر ایک طلاق بائن واقع ہو چکی ہے، دونوں کا نکاح ختم ہو چکا ہے، رجوع جائز نہیں ہے،تاہم آپس کی رضامندی، نئے مہر کے تعین اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ 

تاہم مذکورہ صورت میں سائلہ کے شوہر  طلاق کا انکار کر رہے ہیں لہذا  فریقین کسی مستند مفتی/ عالم کو حکم (ثالث) بنائیں، اور اس کے سامنے ساری صورتِ حال رکھیں، پھر وہ جو فیصلہ کریں اس کے مطابق عمل کریں اور جب تک فیصلہ نہ ہوجائے دونوں کا تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية."

(کتاب الطلاق، 3/ 252، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويصح ‌التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما و هو حقوق العباد و لا يصح فيما لا يملكان فعل ذلك بأنفسهما، و هو حقوق الله تعالى حتى يجوز ‌التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة ولا يجوز في حد الزنا والسرقة والقذف".

  (كتاب ادب القاضی،الباب الرابع و العشرون فی التحکیم/3/ 397ط:رشیدیہ)

فقط واللہ أعلم


fatwa_number : 144312100364

darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town



search

ask_question

required_question_if_not_exists_then_click

ask_question