علماء اسلام نے صراحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالی کے وہ صفاتی نام جو قرآن وحدیث میں غیر اللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالی کے لیے بھی مثلا غنی ،رحیم ،رؤوف ،رشید وغیرہ تو ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے رکھنا جائز ہے اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں ،دریافت طلب امر یہ ہے کہ جن حضرات کے نام ان ہی صفاتی اسماء میں سے مثلا رحیم ہو یا رؤوف ہو یا رشید ہو وغیرہ تو کیا یہ حضرات اپنی اولاد کا نام مثلا محمد بن رحیم ،محمد بن رؤوف ،محمد بن رشید وغیرہ رکھ سکتے ہیں ؟ مستفتی کا نام رحیم الدین ہے تو کیا یہ اپنی اولاد کے نام محمد بن رحیم یا محمد بن رحیم الدین رکھ سکتا ہے ،اسی طرح لڑکی کا نام خدیجہ بنت رحیم یا خدیجہ بنت رحیم الدین رکھ سکتاہے ؟
اللہ تعالیٰ کے وہ صفاتی نام جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ وہ نام قرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ جیسے:غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں،ان کو صفات مشترکہ بھی کہتے ہیں،اور اگر ان صفات سے مسمی کو ئی شخص اپنے بچےکا نام محمد یا کچھ اور نام رکھنا چاہے،جیسے:محمد بن رحیم وغیرہ تو بلا شک و شبہ شرعا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ یہاں محمد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور رحیم سے ذات باری تعالیٰ مراد نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء كذا في السراجية
قوله وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل."
(کتاب الحظر والاباحۃ،ج6،ص417،سعید)
فقط واللہ اعلم
fatwa_number : 144412101457
darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town