حساب کرنے کے بعد میرے ذمہ واجب الادا زکات تقریبًا 50 ہزار پاکستانی روپے بن رہی ہے۔ میرا ایک دوست 3 سال سے میرا مقروض ہے اور قرض کی مالیت 2 لاکھ بنتی ہے۔ اس کے مالی حالات اس قابل نہیں کہ وہ مستقبل قریب میں میرا قرض واپس کر سکے، جب کہ وہ اپنی زرعی زمین کو بیچ کر میرا قرض واپس کر سکتا ہے، لیکن اس زمین کے ایک سے زائد مالکان ہونے کی وجہ سے وہ اسے بیچ نہیں سکتا۔ اب کیا میں اس سےزکات کی مد میں قرض کی رقم جو کہ 2 لاکھ ہے، اس میں سے 50 ہزار منہا کر سکتا ہوں اور کیا میری زکات ادا ہو جائے گی؟ اس کے بعد وہ میرے 1 لاکھ 50 ہزار روپے کا مقروض رہ جائے گا۔
زکات کی ادائیگی کی من جملہ شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ مستحقِ زکات شخص کو زکات کی رقم دیتے وقت زکات کی نیت کی گئی ہو یا کم از کم زکات دینے سے پہلے زکات کی نیت سے رقم کو الگ کر کے رکھا گیا ہو، اگر ان دونوں شرطوں میں سے ایک بھی نہیں پائی جائے تو زکات ادا نہیں ہوگی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کا مقروض شخص آپ کا قرض (دو لاکھ روپے) ادا نہیں کرپارہا ہے تو آپ کے لیے خود پر واجب الادا زکات کی رقم (پچاس ہزار روپے) کو اس قرض میں سے شمار کر کے قرض میں سے پچاس ہزار روپے منہا کرلینا جائز نہیں ہے، ایسا کرنے سے آپ کی زکات ادا نہیں ہوگی، کیوں کہ اس شخص کو قرض دیتے وقت آپ نے زکات کی نیت نہیں کی تھی اور نہ ہی قرض والی رقم کو زکات کی نیت سے الگ کر کے رکھا تھا، البتہ اگر آپ کا مقروض شخص مستحقِ زکات ہو تو قرض کی رقم کو زکات کی مد میں شمار کرنے کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ خود پر واجب الادا زکات کے بقدر رقم زکات کی نیت سے مقروض شخص کو دے دیں، پھر وہ آپ کو قرض کی مد میں وہ رقم واپس کردے تو اس صورت میں آپ کا قرض بھی وصول ہوجائے گا اور زکات بھی ادا ہوجائے گی۔
الفتاوى الهندية (1/ 170):
’’ وأما شرط أدائها فنية مقارنة للأداء أو لعزل ما وجب هكذا في الكنز‘‘۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 268)
’’ (وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما) كما لو دفع بلا نية ثم نوى والمال قائم في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل ثم دفع الوكيل بلا نية ۔۔۔۔۔۔۔ (أو مقارنة بعزل ما وجب) ۔۔۔۔۔۔۔ واعلم أن أداء الدين عن الدين والعين عن العين، وعن الدين يجوز وأداء الدين عن العين، وعن دين سيقبض لا يجوز. وحيلة الجواز أن يعطي مديونه الفقير زكاته ثم يأخذها عن دينه، ولو امتنع المديون مد يده وأخذها لكونه ظفر بجنس حقه، فإن مانعه رفعه للقاضي ۔
(قوله: واعلم إلخ) المراد بالدين ما كان ثابتا في الذمة من مال الزكاة وبالعين ما كان قائما في ملكه من نقود وعروض، والقسمة رباعية؛ لأن الزكاة إما أن تكون دينا أو عينا، والمال المزكى كذلك، لكن الدين إما أن يسقط بالزكاة أو يبقى مستحق القبض بعدها فتصير خمسة فيجوز الأداء في ثلاثة: الأولى أداء الدين عن دين سقط بها كما مثل من إبراء الفقير عن كل النصاب. الثانية أداء العين عن العين كنقد حاضر عن نقد أو عرض حاضر. الثالثة أداء العين عن الدين كنقد حاضر عن نصاب دين. وفي صورتين لا يجوز: الأولى أداء الدين عن العين كجعله ما في ذمة مديونه زكاة لماله الحاضر، بخلاف ما إذا أمر فقيرا بقبض دين له على آخر عن زكاة عين عنده فإنه يجوز لأنه عند قبض الفقير يصير عينا فكان عينا عن عين.
الثانية أداء دين عن دين سيقبض كما تقدم عن البحر، وهو ما لو أبرأ الفقير عن بعض النصاب ناويا به الأداء عن الباقي وعلله بأن الباقي يصير عينا بالقبض فيصير مؤديا بالدين عن العين. اهـ. ولذا أطلق الشارح الدين أولا عن التقييد بالسقوط، ولقوله بعده سيقبض (قوله: وحيلة الجواز) أي فيما إذا كان له دين على معسر، وأراد أن يجعله زكاة عن عين عنده أو عن دين له على آخر سيقبض (قوله: أن يعطي مديونه إلخ) قال في الأشباه وهو أفضل من غيره أي لأنه يصير وسيلة إلى براءة ذمة المديون (قوله: لكونه ظفر بجنس حقه) نقل العلامة البيري في آخر شرح الأشباه أن الدراهم والدنانير جنس واحد في مسألة الظفر‘‘۔
فقط واللہ اعلم
fatwa_number : 144209201313
darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town