میں نےدو سال پہلے ایک رہائشی پلاٹ 9 لاکھ میں خریدا، جب میں نے اس پر اپنا رہائشی مکان تعمیر کے لیے پلاٹ پر مٹی کی بھرتی ڈلوانا شروع کی توایک اور فریق اس پلاٹ کی ملکیت کا دعویدار بن کر سامنے آ گیا، جس کی وجہ سے کام رک گیا اور قانونی مسائل کی وجہ سے اس پر تعمیر ممکن نہ رہی، پلاٹ قانونی طور پر میرے نام پہ رجسٹرڈ ہے جب کہ اس کا کیس عدالت میں چل رہا ہے، اب میں پلاٹ پر مکان بنانے کی بجائے بیچنے کا ارادہ رکھتا ہوں؛ کیوں کہ میں نے ایک دوسری جگہ پر اپنا مکان تعمیر کر لیا ہے، اس پلاٹ کی موجودہ قدر علاقے کی وجہ سے تقریبا 18 لاکھ کے قریب ہے جب کہ پلاٹ متنازعہ ہونے کی وجہ سے کوئی اس کی اصل قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں، اور تنازعہ کھڑا ہونے کی وجہ سے اس پلاٹ کی قیمت 9 لاکھ لگی تھی، جب کہ مجھے ان شاءاللہ امید ہے عدالتی فیصلہ آنے کے بعد کبھی نہ کبھی پلاٹ مجھے مل جائے گا اور اس کی قیمت کم و بیش 18 لاکھ ہو جائے گی، کیایہ پلاٹ میری قابل زکات ملکیت میں آتا ہے؟ اگر آتا ہے تومجھے اس کی قیمت کتنی شمار کرنا ہو گی؟ تاکہ زکات اپنی اصل مقدار میں ادا ہو سکے۔
بصورتِ مسئولہ جب مذکورہ پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا گیاتھا، اور پھر بعد میں فروخت کرنے کا ارادہ ہوا، تو رہائش کے لیے خریدے گئے پلاٹ میں محض تجارت کی نیت کرنے سے زکوۃ لازم نہیں ہوتی، جب تک کہ اس کو فروخت نہ کیا جائے، تاہم فروخت ہونے کے بعد حسبِ شرائطِ زکوۃ قیمتِ فروخت پر زکوۃ لازم ہوگی۔
فتح القدير لكمال بن الهمام میں ہے:
"( ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة ) لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة ( وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة ) لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر ، ولهذا يصير المسافر مقيما بمجرد النية ، ولا يصير المقيم مسافرا إلا بالسفر ( وإن اشترى شيئا ونواه للتجارة كان للتجارة لاتصال النية بالعمل ."
(كتاب الزكوة، ج:2، ص:168، ط:دارالفكر)
فقط والله اعلم
fatwa_number : 144209201315
darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town