بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

darulifta

 

پوتے کا اپنی دادی کی میراث میں حق دار ہونے کا حکم


question

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ماں زندہ ہے اور بیٹا فوت ہو گیا،  ماں اپنی اس بہو سے کہتی ہے جس کا شوہر فوت ہو گیا کہ تم میرے مرنے کے بعد اپنا حصہ لے لینا،  جب کہ  ماں کے دوسرے بیٹے بھی ہیں جو زندہ ہیں اور گواہ نہیں بنائے، اب  ماں کا انتقال ہو گیا۔ کیا اب پوتے شرعًا حصہ لے سکتے  ہیں یا نہیں؟ جب کہ آئینِ  پاکستان حصہ دے رہاہے کہ پوتے حصہ لے  سکتے  ہیں۔ برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں جواب ارسال فرما دیں!

answer

واضح رہے  کہ شریعتِ  مطہرہ نے حقِ وراثت کا مدار قرابت  داری پر رکھا ہے،لہذا میت کے ساتھ  رشتہ میں جو زیادہ قریب ہوگا وہ استحقاقِ وراثت میں مقدم ہوگا اور اس کی موجودگی میں دیگر  وہ رشتہ دار جو قرابت داری میں دور ہوں، محروم قرار پائیں گے، لہذا جب مرحومہ کے انتقال کے بعد مرحومہ کے اپنے بیٹے موجود  ہیں تو  ان کی موجودگی میں پوتے  حق دار نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ بیٹے پوتے کے مقابلہ میں میت سے زیادہ قریب ہیں اور  قریب کا تعلق بعید کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے ،لہذا وہی مستحقِ وراثت ہے، تاہم پوتے اپنے مرحوم والد کے ترکہ میں ضرور حق دار ہوں  گے۔

اگر پوتے پوتیاں ضرورت مند ہوں تو  ان کے چچا وغیرہ  کو ان کی کفالت  کرنی چاہیے، اور اگر دادا دادی کو اندازہ ہو کہ یتیم پوتے پوتی کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو انہیں  چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی کچھ حصہ انہیں بطورِ ہدیہ مالک بناکر دے دے، یا ان کے حق میں ایک تہائی ترکے کے اندر اندر وصیت کرجائے۔

باقی مرحومہ نے انتقال سے پہلے اپنی بہو کو جو حصہ لینے کا کہا ہے اگر اس سے مراد مرحومہ کی میراث میں سے کچھ لینا ہے تو ازروئے شرع بہو اپنی ساس کے میراث میں حق دار نہیں ہوتی، اور  اگر مرحومہ نے کوئی وصیت کی ہے تو مرحومہ کے ترکہ کے تہائی مال سے وصیت نافذ کیا جائےگا، ملحوظ رہے مذکورہ خاتون اپنے مرحوم شوہر  کی میراث میں سے آٹھویں  حصے کے بقدر ضرور حق دار ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و يستحق الإرث بإحدى خصال ثلاث: بالنسب و هو القرابة، و السبب وهو الزوجية، والولاء"

(الباب الثانی فی ذوی الفروض، ج:6، ص:447، ط: دار الفکر)

عمدۃ القاری میں ہے:

"و قال زيد : ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم ولد ذكر ذكرهم كذكرهم وأنثاهم كأنثاهم يرثون كما يرثون ويحجبون كما يحجبون ولا يرث ولد الابن مع الابن"

( باب ميراث ابن الابن إذا لم يكن ابن، ج:23، ص:238، ط:داراحیاء التراث العربی) 

فقط والله أعلم 


fatwa_number : 144207201023

darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town



search

ask_question

required_question_if_not_exists_then_click

ask_question