بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

darulifta

 

لڈو کھیلنا


question

کیا لڈو کھیلنا ناجائز اور حرام ہے؟ برائے مہربانی تفصیل سے آگاہ کیجیے!

answer

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جن سے جسمانی فائدہ ہوتا ہو ، جیسے: تیراکی، تیراندازی، گھڑسواری،  اور ان کھیلوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جن میں لگنے سے وقت کا ضیاع ہوتا ہو، اور ایسے کھیلوں کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے گناہوں کا ارتکاب لازم آتا ہو یا وہ کھیل فساق و فجار کے کھیل ہوں، جیسے: شطرنج وغیرہ ۔

نیز  لڈو  یا اس طرح کے کھیلوں میں عموماً انہماک اس درجہ کا ہوتا ہے کہ نماز و دیگر امور میں غفلت ہوجاتی ہے، اور اس بے مقصد کھیل میں قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہی ہے، نیز ایسے کھیلوں میں انہماک کی وجہ سے دل ودماغ اکثر اوقات ان ہی چیزوں کی طرف متوجہ رہتاہے اور خدا کی یاد سے غافل رہتاہے، لایعنی امور میں ایسا انہماک شرعاً ناپسندیدہ ہے، مسلمان کا دل ودماغ ہر وقت یادِ خدا اور آخرت کی تیاری میں مشغول رہنا چاہیے، اور وقت کو با مقصد کاموں میں لگانا چاہیے جن میں دینی و دنیوی یا کم از کم دنیوی فائدہ ہو ،اگر لڈو میں ہار جیت پر جانبین سے شرط ہو تو یہ جوا ہونے  کی وجہ سے حرام  ہے، اور نمازوں اور دیگر فرائض میں غفلت ہو تو بھی بلاشبہ ناجائز ہے، اگر  تمام مفاسد سے خالی ہو تو بھی اس میں بے مقصد وقت کا ضیاع ہے، جو شرعًا انتہائی ناپسندیدہ ہے، حدیثِ پاک میں ہے کہ قیامت کے دن انسان اپنے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں بڑھاسکے گا جب تک پانچ سوالوں کا جواب نہ دے دے، ان میں سے ایک عمر (وقت) کے بارے میں بھی سوال ہے کہ یہ کن کاموں میں گزاری؟  اور جب تک انسان اس کا جواب نہ دے سکے  گا اپنی جگہ سے قدم نہیں بڑھاسکے گا، لہذا ایسے بے مقصد اور لایعنی کھیلوں سے بہرصورت اجتناب کرناچاہیے۔

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

’’تاش کھیلنا یا لڈو کھیلنا بہت برا ہے، اور اگر اس پر ہار  جیت کی  شرط ہو تو جوا ہے اور بالکل حرام ہے، گناہِ کبیرہ سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے، ایک گناہ سے بچنے کے لیے دوسرے گناہ کو اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے، کامیاب مؤمنین کی شان اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کی ہے:

 {وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ} 

 کامیاب مؤمنین وہ ہیں جو لہو ولعب سے اعراض کرتے ہیں۔

حضرت شیخ الہندؒ لکھتے ہیں کہ:

’’خود تو لہو ولعب میں مصروف نہیں ہوئے، بلکہ اگر کوئی اور شخص بھی لہو ولعب میں مصروف ہو تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں‘‘۔

  (ماخوذ از فتاویٰ مفتی محمود ج: 11، ص: 259، باب الحظر والاباحۃ، ط: اشتیاق پریس لاہور)

نیز حدیث شریف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

"انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو بے فائدہ ہے۔" [مالک، احمد]

ایک اور حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

۔۔۔ یاد رکھو! انسان جس چیز کو لہو ولعب (یعنی محض کھیل اور تفریح) کے طور پر اختیار کرے وہ باطل اور ناروا ہے، مگر اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا، اپنے گھوڑے کو سدھارنا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیل وتفریح کرنا، یہ سب چیزیں حق ہیں۔(ترمذی، ابن ماجہ)

لہذا صورتِ مسئولہ میں لڈو جیسے  بے مقصد کھیل و تفریح میں وقت ضائع نہ کیا جائے، بلکہ فارغ اوقات اللہ کی یاد  تلاوت قرآن مجید  و دیگر با مقصد کاموں میں صرف کرنے کی عادت بنائی جائے۔ فقط واللہ اعلم


fatwa_number : 144208201085

darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town



search

ask_question

required_question_if_not_exists_then_click

ask_question