بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

darulifta

 

نکاح میں گواہ کا شہادت پراجرت لینے کاحکم


question

1-  کورٹ میرج (عدالتی نکاح )کا شرعی حکم کیا ہے؟ گواہ کرائے کے ہوں، اور خطبہ بھی نہیں ہو، اور ایجاب و قبول وکیل کروائے ۔

answer

1- واضح رہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں اگر بالغ ہوں اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا ایجاب وقبول کرلیں، تو اس طرح نکاح شرعاً منعقد ہوجاتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں کورٹ میرج کے ذریعے منعقد ہونے والا نکاح اگر شرعی گواہوں کی موجودگی میں ہو، اور لڑکا لڑکی دونوں بالغ ہوں، تو نکاح منعقد ہوجائے گا، لیکن اگر برابری کا رشتہ نہ ہو اور لڑکی کے والدین اس پر راضی نہ ہوں، تو لڑکی کے اولیاء کو  اولاد ہونے سے پہلے تک ایسا نکاح بذریعہ عدالت فسخ کرنے کا اختیار ہوگا۔ 

2- نکاح کے لیے گواہ بنناشرعی شہادت ہے اور شرعی شہادت پراجرت لیناناجائزہے،البتہ اگر اجرت لے کر دومسلمان نکاح کے انعقاد میں گواہ بن جائیں تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔(کفایت المفتی  275،2،ط:دارالاشاعت)

3- نکاح کا خطبہ پڑھنا سنت ہے، اگرچہ بغیر خطبہ کے گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرلینے سے نکاح منعقد ہوجائے گا، مگر خلاف سنت ہے، اور نکاح کی برکات اور ثواب سے محرومی کا باعث ہوگا۔

4- جب لڑکے  یا اس کے وکیل اور لڑکی یا اس کے وکیل کے درمیان (گواہوں کی موجودگی میں) ایجاب و قبول ہوتا ہے تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الثاني فالنكاح الذي الكفاءة فيه شرط لزومه هو إنكاح المرأة نفسها من غير رضا الأولياء لا يلزم حتى لو زوجت نفسها من غير كفء من غير رضا الأولياء لا يلزم. وللأولياء حق الاعتراض؛ لأن في الكفاءة حقا للأولياء.......ولو كان التزويج برضاهم يلزم حتى لا يكون لهم حق الاعتراض".

(کتاب النکاح، فصل بيان ما تعتبر فيه الكفاءة، 2/ 318، ط: دار الکتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به.

(قوله لئلا يضيع الولد) أي بالتفريق بين أبويه، فإن بقاءهما مجتمعين على تربيته أحفظ له بلا شبهة فافهم".

(کتاب النکاح، باب الولي، 3/ 56، ط: سعید)

وفیہ ایضا: 

"(وتعتبر) الكفاءة للزوم النكاح خلافا لمالك".

(كتاب النكاح، باب الكفاءة، 3/ 86، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب".

(كتاب النكاح،ج:3، 22-23، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح، كذا في محيط السرخسي ولا تعتبر في جانب النساء للرجال، كذا في البدائع. فإذا تزوجت المرأة رجلا خيرا منها؛ فليس للولي أن يفرق بينهما فإن الولي لا يتعير بأن يكون تحت الرجل من لا يكافئوه، كذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي" .

(کتاب النکاح، الباب الخامس في الأكفاء في النكاح، 1/ 290، ط: دار الفکر)

وفیہ ایضا:

"الكفاءة تعتبر في أشياء (منها النسب)۔۔۔(ومنها إسلام الآباء)۔۔۔(ومنها الحرية)۔۔۔(ومنها الكفاءة في المال)۔۔۔(ومنها الديانة)۔۔۔(ومنها الحرفة)".

(کتاب النکاح، الباب الخامس في الأكفاء في النكاح،1/ 290،ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


fatwa_number : 144504101735

darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town



search

ask_question

required_question_if_not_exists_then_click

ask_question