بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

darulifta

 

چور بازار سے سامان خریدنے کا حکم


question

 کیا چور بازار سے سامان خریدنا جائز ہے؟ کیوں کہ وہاں سامان  سستا ملتا ہے ۔

answer

واضح رہے کہ اگر کسی چیز کے بارے میں یقین یا غالب گمان ہو کہ یہ چیز چوری کی ہے تو اس کا خریدنا جائز نہیں ہے، اور اس کے خریدنے سےخریدار اس کا مالک نہیں بنتا ،بلکہ اصل مالک کو وہ چیز لوٹانا ضروری ہوتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر چور بازار میں ساری چیزیں چوری ہی کی فروخت ہوتی ہیں تو وہاں سے سامان خریدنا جائز نہیں ہے اور اگر وہاں چوری شدہ مال کے علاوہ بھی دکاندار اپنے مال سے صحیح چیزیں لاکر فروخت کرتے ہیں ،ہر ایک  سامان چوری کانہیں ہوتا تو اس صورت میں جس چیز کے بارے میں یقین یا غالب گمان ہو کہ یہ سامان چوری کا نہیں ہے تو اس کا خریدنا جائز ہوگااور اس صورت میں صرف اس بازار کا نام چور بازارہونے کی وجہ سے وہاں خریداری مطلقاً ممنوع نہ ہوگی۔

السنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " من اشترى سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها ."

(كتاب البيوع،باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أوثمن المحرم،547/5،ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا ملك السارق المسروق من رجل ببيع، أو هبة، أو ما أشبه ذلك قبل القطع، أو بعده فتمليكه باطل، ويرد المسروق على المسروق منه، ويرجع المشتري على السارق بالثمن الذي دفعه إليه."

(كتاب السرقة ،الباب الثاني فيما يقطع فيه،الفصل الثالث في كيفية القطع وإثباته،184/2،ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


fatwa_number : 144408102131

darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town



search

ask_question

required_question_if_not_exists_then_click

ask_question