کیا چور بازار سے سامان خریدنا جائز ہے؟ کیوں کہ وہاں سامان سستا ملتا ہے ۔
واضح رہے کہ اگر کسی چیز کے بارے میں یقین یا غالب گمان ہو کہ یہ چیز چوری کی ہے تو اس کا خریدنا جائز نہیں ہے، اور اس کے خریدنے سےخریدار اس کا مالک نہیں بنتا ،بلکہ اصل مالک کو وہ چیز لوٹانا ضروری ہوتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر چور بازار میں ساری چیزیں چوری ہی کی فروخت ہوتی ہیں تو وہاں سے سامان خریدنا جائز نہیں ہے اور اگر وہاں چوری شدہ مال کے علاوہ بھی دکاندار اپنے مال سے صحیح چیزیں لاکر فروخت کرتے ہیں ،ہر ایک سامان چوری کانہیں ہوتا تو اس صورت میں جس چیز کے بارے میں یقین یا غالب گمان ہو کہ یہ سامان چوری کا نہیں ہے تو اس کا خریدنا جائز ہوگااور اس صورت میں صرف اس بازار کا نام چور بازارہونے کی وجہ سے وہاں خریداری مطلقاً ممنوع نہ ہوگی۔
السنن الکبری للبیہقی میں ہے:
"عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " من اشترى سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها ."
(كتاب البيوع،باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أوثمن المحرم،547/5،ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا ملك السارق المسروق من رجل ببيع، أو هبة، أو ما أشبه ذلك قبل القطع، أو بعده فتمليكه باطل، ويرد المسروق على المسروق منه، ويرجع المشتري على السارق بالثمن الذي دفعه إليه."
(كتاب السرقة ،الباب الثاني فيما يقطع فيه،الفصل الثالث في كيفية القطع وإثباته،184/2،ط: رشيدية)
فقط والله أعلم
fatwa_number : 144408102131
darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town