میری ایک دوست ہے جو بہت مجبور ہے، سود پر قرضہ ملنے کی وجہ سے آج تک انہوں نے قرضہ لے کر مکان نہیں بنایا، اب وہ شدید بیمار ہے اور چاہتے ہیں کہ جیسے قرضہ مل جائے تو لے لیں؛ کیوں کہ وہ خوفزدہ ہے کسی بھی وقت کرایہ کے مکان سے نکالے جاسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ مذکورہ فیملی کی تمام مشکلات دور فرمادیں اور آسانی کا معاملہ کردے، باقی سودی قرضہ لینے کا حکم یہ ہے کہ سود پر مشتمل قرضہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے، اگر ان کے پاس فی الحال اتنی رقم نہیں ہے جس سے ذاتی مکان خرید سکیں اور قسطوں پر خریدنے کی بھی کوئی جائز صورت نہ بن سکے تو بھی ان کے لیے سود پر مشتمل قرضہ لینے کی اجازت نہیں ہے، اگر کسی سے غیر سودی قرض مل جائے تو آدمی لے لے، بصورتِ دیگر مکان خریدنے کے لیے رقم جمع کرنا شروع کر دے، نصابِ زکوٰۃ سے زائد رقم جمع ہوجائے تو اس کی زکاۃ بھی دے اور جب تک رقم جمع نہ ہو جائے اُس وقت تک اپنی حیثیت کے مطابق کرایہ کے مکان میں رہے، شرعی حدود میں رہ کر کفایت شعاری سے کام لے، پھر جب پیسے جمع ہو جائیں تو اُن پیسوں سے مکان خرید لے۔
اس دوران جو تکالیف آئیں ان پر صبر کرنا چاہیے؛ کیوں کہ مؤمن کی نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت پر ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جس حال میں راضی ہوں اور جس عمل کے نتیجے میں آخرت کی لازوال نعمتوں کا وعدہ ہو اسے مدِ نظر رکھتے ہوئے ان شاء اللہ دنیا کے مصائب ہیچ معلوم ہوں گے۔
سود کا لین دین شرعاً ا س قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ [البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]
ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن"
( كتاب البيوع، فصل فى القرض، مطلب کل قرض جر نفعا، ج:5، ص:166، ط: ايج ايم سعید)
فقط واللہ اعلم
fatwa_number : 144212200857
darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town