بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 ذو الحجة 1446ھ 25 جون 2025 ء

darulifta

 

بینک میں ملازمت کا حکم


question

میں ایک نجی بینک میں سافٹ ویئر انجینیئر کے طور پر کام کرتی ہوں، مجھے اسلامی نکتہ نظر سے معلوم کرنا ہے کہ کیا میری ملازمت حلال ہے؟ اگر نہیں ہے تو کیا مجھے فوراً ملازمت چھوڑنی چاہیے؟ میرا سوال یہ ہے کہ بینک کی سروس استعمال کرنے والوں کے لیے کیا فتوی ہے؟ جو لوگ بینک کو کاروبار فراہم کر رہے ہیں؟ کیا انہیں فوراً اپنی رقم نہیں نکال لینی چاہیے؟  اگر بالمشافہہ بات ہوجائے تو مجھے زیادہ تسلی ہوگی!

answer

بینک میں ملازمت، بینک  میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے اور بینک سے کسی بھی قسم کا سودی معاملہ کرنے کی ممانعت ہے اور اس کی بالکل اجازت نہیں دی جاتی،  جس کی وجہ یہ ہے کہ ملازمت کی صورت میں انسان سودی معاملات میں براہِ راست  معاون و مددگار بن رہا  ہوتا ہے جس سے ہمیں سختی سے روکا گیا ہے، نیز ملازمت کی صورت میں تنخواہ بھی سودی رقم ہی سے دی جاتی ہے، اس لیے بینک میں ملازمت کرنا جائز نہیں۔

اسی طرح سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے کی صورت میں بھی اکاؤنٹ ہولڈر منافع کی صورت میں کچھ  رقم وصول کرتا ہے جو سود سے حاصل شدہ ہوتی ہے اور سودی رقم حاصل کرنا سخت گناہ ہے؛ اس لیے اس کی بالکل گنجائش نہیں دی جا سکتی۔

جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی صورت میں اکاؤنٹ ہولڈر  نہ تو براہِ راست  سودی نظام میں معاون ہوتا ہے، اور نہ ہی سودی رقم وصول کرتا ہے؛ اس لیے ضرورت کی وجہ سے بامرِ مجبوری اس کی اجازت دی جاتی ہے، گو بہتر یہ ہی ہے کہ اس سے بھی احتراز کیا جائے؛ کیوں کہ اس صورت میں بھی اکاؤنٹ ہولڈر کا پیسہ سودی نظام میں استعمال ہوتا ہے، لہذا احتیاط بہتر ہے۔

بینک کے ملازم پر لازم ہے کہ فوراً بینک کی ملازمت ترک کر کے کوئی جائز ملازمت کرے، البتہ اگر فورًا چھوڑنے میں شدید مضرت ہو تو جب تک جائز آمدن کا بندوبست نہ ہو اس وقت تک گناہ سمجھتے ہوئے بینک میں کام کر سکتا ہے، لیکن ضروری ہے کہ متبادل حلال کی سنجیدہ کوشش جاری رکھے، اور اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے دعا کرتا رہے، اور جیسے ہی بقدرِ ضرورت حلال روزی میسر آجائے فورًا حرام ملازمت ترک کردے، پرتعیش ملازمت آنے تک انتظار نہ کرے۔

نیز عورت کے لیے ضرورتِ شرعیہ کے بغیر گھر سے نکلنا پسندیدہ نہیں ہے اگرچہ پردے میں ہو، البتہ اگر شدید ضرورت ہو تو وہ حجاب کے احکام کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز ملازمت کرسکتی ہے؛ لہٰذا سائلہ کو اگر شدید ضرورت نہیں ہے، تو اسے فورًا یہ ملازمت ترک کردینی چاہیے، البتہ اگر اس کے نفقے کا انتظام نہیں ہے تو مجبوری کی حالت کا حکم گزشتہ سطور میں ابھی گزرا ہے۔ 

یہ بھی واضح ہو کہ سودی قرض کا لین دین شرعی لحاظ سے "کاروبار" نہیں ہے، بلکہ ایک ناجائز سودی معاملہ ہے؛ لہذا جو لوگ بینک کے ساتھ سودی قرض کے لین دین کا معاملہ کرتے ہیں (جس کو سائلہ نے "کاروبار" سے تعبیر کیا ہے)، ان  پر بھی لازم ہے کہ جلد از جلد اس معاملہ کو ختم کریں۔

اور اگر آپ کو مفتیانِ کرام سے براہِ راست تفصیل معلوم کرنی ہے تو دار الافتاء کے اوقات (صبح 8 تا 12 اور دوپہر میں 2.30 تا 4.30) میں آکر ان سے استفادہ کرلیں۔


fatwa_number : 144203200635

darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town



search

ask_question

required_question_if_not_exists_then_click

ask_question