بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

darulifta

 

بغیر اضافت اور لفظ طلاق کے صرف ایک دو تین کہنے سے طلاق کا حکم


question

ایک ستر سالہ آدمی   اپنی ساٹھ سالہ بیوی کو اچانک گالم گلوچ اور غصہ ہوتا ہے، اس دوران مرد کے منہ سے یہ کلمات ادا ہوئے  ہیں، ایک، دو، تین، اب بولو نا، غصہ کرو، مطلب مرد کے کلمات میں طلاق کے الفاظ یا بیوی کا نام نہیں تھا، صرف تین تک گنتی کی، اب مرد کا غصہ ٹھنڈا ہوتے ہی ندامت ہوئی ، کہ میں نے کیا کیا؟

اب دریافت کہ کرنا ہے کہ مذکورہ مرد کی بیوی پر طلاق واقع ہوچکی ہے یا نہیں۔؟

answer

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ مرد نے  "ایک، دو، تین" کے ساتھ نہ طلاق کے الفاظ کا ذکر کیاہے اور نہ بیوی کی طرف نسبت ہے، اس لیے مذکورہ الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، دونوں بحیثیت میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ،لیکن غصہ اور جذبات میں ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ،ذرا سی الفاظ کی تبدیلی سے طلاق بھی واقع ہوسکتی ہے ،اس لیے آئندہ ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کریں ۔

فتاوى قاضيخان علی ہامش الہندیة میں ہے:

"رجل قال لامرأته: ترايكي أو قال: تراسه، قال الصدر الشهيد رحمه ﷲ تعالى :طلقت ثلاثاً ولو قال: تويكي أو قال :توسه، قال أبو القاسم رحمهﷲتعالى: لا يقع الطلاق ،قال مولانا رضي ﷲ تعالى عنه: وينبغي أن يكون الجواب على التفصيل :إن كان ذلك في حال مذكرة الطلاق أو في حالة الغضب يقع الطلاق وإن لم يكن لا يقع إلا بالنیة كما لو قال بالعربية: أنت واحدة".

(كتاب الطلاق، الباب الخامس فى طلاق المريض، ج:1، ص:464، ط:ماجدية كوئيته)

اس عبارت سے معلوم ہوا ہے کہ " ایک دو تین "سے اضافت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فقط واللہ اعلم


fatwa_number : 144308100862

darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town



search

ask_question

required_question_if_not_exists_then_click

ask_question