میری شادی کو بیس سال ہورہے ہیں، معمولی لڑائی جھگڑے ہوتے رہے ہیں، لیکن پچھلے چار سالوں سے ہم دونوں حالات کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں، اسی بنا پر تین سال پہلے میرے شوہر نے مجھے شدید غصہ میں دو بار لفظ طلاق بول دیے، بعد میں ہم نے رجوع کرلیا۔
اب پھر اس سال کرونا اور تیزی سے بدلتی ہوئی معاشی حالات کی وجہ سے مستقل ذہنی پریشانی میں لڑائی جھگڑا ہوا، جس پر پھر انہوں نے خالی لفظ طلاق بول دیا۔
اب مجھے بتائیں کہ کیا طلاق ہوگئی؟ کیوں کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں تم کو طلاق دیتا ہوں۔
صورتِ مسئولہ میں تین سال قبل جب آپ کے شوہر نے آپ کو دو طلاقیں دی تھیں اور پھر رجوع کرلیا تھا جیساکہ سوال میں مذکور ہے تو اس سے باہمی نکاح قائم رہا، اور آئندہ کے لیے شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل تھا۔
اب اگر شوہر نے ایسے ماحول میں صرف لفظِ طلاق ادا کیا ہو، نہ آپ کی جانب سے طلاق کا مطالبہ ہو، نہ طلاق سے متعلق گفتگو ہو اور شوہر نے صراحتاً یا اشارۃً بیوی کی طرف کوئی نسبت نہ کی ہو تو اس سے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اگر شوہر قسم کھالے اور یہ کہہ دے کہ اس سے مقصد بیوی کو طلاق دینا نہیں تھا تو قسم کے ساتھ اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔
لیکن اگر جھگڑا ہو رہا ہو یا بیوی کی جانب سے طلاق کا مطالبہ ہو ایسی صورت میں لفظ طلاق ادا کرنے سے ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد بیوی ہے، اس لیے ایسی صورت میں بیوی کی جانب نسبت کے بغیر بھی لفظ طلاق ادا کرنے سے طلاق ہوجائے گی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں لڑائی جھگڑے میں جب آپ کے شوہر نے لفظ طلاق ادا کیا ہے تو اگرچہ صراحتاً نسبت موجود نہیں، لیکن موقع محل یہ بتارہاہے کہ ان کا مقصد اپنی زوجہ ہی ہے، اس لیے اب تینوں طلاقیں واقع ہوجانے کی بنا پر نکاح ختم ہوچکا ہے، اور بیوی اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
’’لكن لا بدّ في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘.
(3/250، کتاب الطلاق، ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرًا فلايصدق في الصرف عن الظاهر".
(كتاب الطلاق، فصل في النية في نوعي الطلاق ج3، ص: 102، دار الكتب العلمية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق، فقيل له: من عنيت؟ فقال امرأتي، طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازياً إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر، فقال: إني حلفت بالطلاق أني لاأشرب وكان كاذباً فيه ثم شرب طلقت... فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحاً، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل: إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلايخالف ما في البزازية ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال: طلقت امرأة ثلاثاً، وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه".
(کتاب الطلاق، ج:۳ ؍ ۲۴۸ ، ط:سعید )
فقط واللہ اعلم
fatwa_number : 144203201352
darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town