بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

darulifta

 

بچے کا نام ازیان رکھا ہو/ نام کی تأثیر


question

کیا نام بدلنے سے اس کی تاثیر ہوتی ہے؟ میرا بچہ اکثر بیمار رہتا ہے، سوتا کم ہے، ہم نے اس کا نام ازیان رکھا ہے۔ اب سوچ رہے ہیں کہ اس کو تبدیل کر لیں  شاید وہ ٹھیک ہو جائے۔

answer

 واضح  رہے کہ  نام کے  معنی کا اثر انسان پر پڑسکتا ہے، سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے دادا "حزن" رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے آپ کا نام پوچھا، انہوں نے  اپنا نام "حزن" (بمعنی سخت، مشکل وغیرہ) بتایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں، تم "سہل" (آسان، نرم) ہو، انہوں نے عرض کیا کہ میرے والد نے جو نام رکھا ہے میں اسے تبدیل نہیں کرسکتا، سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کے بعد سے ہمارے خاندان میں سختی اور مشقت چلی آرہی ہے؛ لہٰذا  نام  رکھنے  کے  حوالے  سے حکم یہ  ہے  کہ  یا تو انبیاءِ کرام علیہم السلام، صحابہ کرام، صحابیات مکرمات اور نیک مردوں یا عورتوں کے نام پر اولاد کا نام رکھا جائے یا اچھے معنیٰ پر مشتمل نام رکھا جائے۔   روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ برے ناموں کو اچھے ناموں سے تبدیل فرمادیا کرتے تھے۔

نیز صورتِ  مسئولہ میں اگر بچے کا نام "اَزْیان"    ہو تو، عربی لغت میں یہ جمع  کا لفظ ہوگا، اور اس کا معنیٰ ہوگا: "زینتیں"، " ملانے والے لوگ"، "ناقص لوگ"۔

اور اگر  "اذیان" (ذال کے ساتھ) ہو تو، اس کا معنیٰ ہوگا  "تکلیف والے"۔ اور   ممکن ہے اس معنی کی وجہ سے ہی  بچہ تکلیف  میں اور  بیمار رہتا ہو۔

بہردو صورت یہ نام  مناسب نہیں، لہٰذا اس نام کو تبدیل کر لیا جائے تو بہتر ہے۔

صحابہ کرام کے ناموں میں اس سے  ملتا  جلتا نام سفیان، حیان، ظبیان   ملتا ہے، یہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔

موطأ مالك رواية أبي مصعب الزهري (2/ 153):

"أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ - رحمهة الله عليه - قَالَ لِرَجُلٍ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ جَمْرَةُ، قَالَ: ابْنُ مَنْ؟ قَالَ: ابْنُ شِهَابٍ: قَالَ: ابن من؟ قَالَ: ابن الْحُرَقَةِ، قَالَ: أَيْنَ مَسْكَنُكَ؟ قَالَ: بِحَرَّةِ النَّارِ، قَالَ: بِأَيِّهَا؟ قَالَ: بِذَاتِ لَظًى، قَالَ عُمَرُ: أَدْرِكْ أَهْلَكَ فَقَدِ احْتَرَقُوا، قَالَ: فَكَانَ كَمَا قَالَ عُمَرُ."

المحكم والمحيط الأعظم (9 / 91):

"[ز ي نٍ] الزَّيْنُ: خِلافُ الشَّيْنِ، وجَمعُه: أَزْيانٌ، قال حُمَيدُ بنُ ثَوْرٍ: (تَصِيدُ الجَلِيسَ بأَزْيانِها ... ودَلٍّ أَجابَتْ عليهِ الرُّقَي)."

إيضاح شواهد الإيضاح (1 / 460):

"و في "العين" أزيت إلى الشيء، آزي أزياً: انضممت إليه."

العين (7 / 398):

"أزي: أَزَى الشّيء يأْزي بَعْضُه إلى بعضٍ، نحو اكْتِناز اللّحْم، وما انْضَمَّ من نحوه.قال «117» :

عضّ السِّقالِ فهو آزٍ زِيَمُهْ."

الجيم (1 / 58):

"و قال: أزى بعضهم إلى بعض؛ أي: اجتمع، يَأْزِى أُزِيًّا؛ والثوب يأزى، إذا غُسل، و كل شيء تقبَّضَ؛ يقال: أَزاهم شرٌّ."

الجيم (2 / 85):

"و قال الفزاري: الأُزي: النقصان، وقد أزى الماء أي نقص، يأزى أُزياًّ شديدًا."

وقال:

"حَتَّى أَزَى دِيوانُه المَحْسُوبُ

ولاحَ فيها الشَّفَقُ المَكْتُوبُ."

 فقط واللہ اعلم


fatwa_number : 144206200222

darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town



search

ask_question

required_question_if_not_exists_then_click

ask_question