میرے والد مرحوم کا گھر تھا جو سن 2000میں چار لاکھ روپے میں فروخت ہوا، اور سن 2000 ہی میں نیا گھر بک کروایا گیا جو بڑے بھائی نے اپنے نام پر لیا، اس کی کل قیمت سولہ (16) لاکھ تھی، وہ چار لاکھ ملا کر باقی بارہ لاکھ بڑے بھائی نے اپنے ذاتی لگائے اور اپنے نام پر گھر خریدا، ہم سب اسی گھر میں رہتے ہیں، میں سب سے چھوٹی ہوں، میری شادی سن 2012 میں ہوئی، تب تک اسی گھر میں رہی، پھر سن 2020 میں بھائی نے وہ گھر تقریبًا دو کروڑ روپے میں بیچ دیا، اب کیا اس گھر کو بیچ کر حاصل ہونے والی رقم میں باقی بہن بھائیوں کا حصہ ہوگا؟ اگر باقی بہن بھائیوں کو حصہ ملے گا تو صرف چار لاکھ تقسیم ہوں گے یا کیا حساب کتاب ہوگا ؟
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ بھائی نے والد مرحوم کے گھر کو بیچ کر حاصل ہونے والی رقم اس نئے گھر کی خریداری میں شامل کی تھی، جس کی مجموعی مالیت کا تین چوتھائی حصہ آپ کے بھائی کا ذاتی تھا، جب کہ ایک چوتھائی حصہ آپ کے والد کی وراثت کی رقم تھی، اور بڑے بھائی سے اس وقت صراحتًا قرض کا معاہدہ نہیں ہوا تھا تو اس نئے گھر کا تین چوتھائی حصہ تو آپ کے بڑے بھائی کی ذاتی ملکیت تھی، لیکن ایک چوتھائی حصہ میں آپ کے والد مرحوم کے تمام شرعی ورثاء(مثلًا آپ تمام بہن بھائی اور والدہ) بھی شریک ہیں، لہٰذا دو کروڑ روپے میں سے ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے تو بڑے بھائی کے ہوں گے، جب کہ باقی پچاس لاکھ روپے میں بڑے بھائی سمیت مرحوم والد کے تمام ورثاء شریک ہیں اور سب کو میراث کے ضابطہ شرعی کے موافق حق و حصہ ملے گا۔
شرح المجلہ میں ہے:
"تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم."
(كتاب الشركة، ص: ٢٢، المادة: ١٠٧٣، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
fatwa_number : 144212201313
darulifta : Jamia Uloom Islamiyyah Allama Muhammad Yousuf Banuri Town