بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو الحجة 1446ھ 09 يونيو 2025 ء

bayyinat

 
 

حضرت علی بن شہاب الدین ہمدانیؒ کے رسالہ  ’’ناسخ القرآن و منسوخہ‘‘کا تعارف


حضرت علی بن شہاب الدین ہمدانیؒ کے رسالہ  ’’ناسخ القرآن و منسوخہ‘‘کا تعارف


علوم القرآن میں ایک اہم عنوان ناسخ و منسوخ کا ہے۔ نسخ کے معنی لغت میں ’’ختم کرنا‘‘، ’’مٹانا‘‘، ’’ازالہ کرنا‘‘، ’’لکھنا‘‘ یا ’’نقل کرنا‘‘ آتے ہیں۔ نسخ اس امر کو بھی کہتے ہیں جو کسی حکم کی انتہائے مدت پر دلالت کرے۔ اصطلاحی معنی میں نسخ کسی شرعی حکم کو کسی شرعی دلیل سے ختم کرنے کو کہتے ہیں۔
یعنی اللہ تعالیٰ کا کسی پہلے نازل شدہ حکمِ شرعی کو زمانے کی مناسبت سے دوسرے حکمِ شرعی سے ختم اور تبدیل کرنے کا نام ’’نسخ‘‘ ہے۔ یہ ختم کرنا اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت ہے، نہ کہ معاذاللہ کوئی نقص و عذاب۔ نسخ کا معنی رائے کی تبدیلی نہیں، بلکہ ہر زمانے کے اعتبار سے مناسب احکام جاری کرنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی نئے حکم سے پرانے حکم کو منسوخ کر دیتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اب کوئی نئی بات سوجھی جو اس کو پہلے معلوم نہ تھی، بلکہ نسخ کی بنیاد مصالح و فوائد پر ہوتی ہے، جن سے اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے دین پر چلنا آسان کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حالات کی تبدیلی کی بنا پر ایک نیا حکم نازل کرتا ہے، جس کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ نسخ کی وجہ علمِ الٰہی میں تغیر و تبدل نہیں، بلکہ لوگوں کے حالات میں تبدیلی ہے جو وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں تو پہلے سے ہی ہوتا ہے کہ پہلا حکم کس مدت تک ہے اور کس حکم سے اس کو منسوخ کیا جائے گا۔ جو پرانا حکم ختم ہو جاتا ہے اسے’’منسوخ‘‘ اور جو نیا حکم آتا ہے اسے ’’ناسخ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’ناسخ‘‘ فاعل کے وزن پر ہے، جس کا معنی ہے نسخ کرنے والا، جبکہ ’’منسوخ‘‘ مفعول کے وزن پر ہے، جس کا معنی ہے نسخ (ختم) ہونے والا۔
قرآن کریم میں نسخ کی سب سے بڑی دلیل خود قرآن کریم میں ہی موجود ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَآ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلَیٰ کُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‘‘   (البقرۃ :۱۰۶)
ترجمہ: ’’ہم جب بھی کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا اُسی جیسی (آیت) لے آتے ہیں۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟ ‘‘ 
تقریباً تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں ’’نسخ‘‘ سے مراد کسی حکم کا ختم یا زائل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد آیات،احادیث اور آثار قرآن کریم میں نسخ پر دلالت کرتے ہیں۔
نسخ کی تعریف اور استعمال میں متقدمین اور متاخرین کا کچھ اختلاف بھی رہا ہے، جس کی بنا پر ان کے یہاں منسوخ آیات کی تعداد بھی مختلف ہو جاتی ہے۔ متقدمین کے یہاں لفظ ’’نسخ‘‘ ایک وسیع معنی کا حامل تھا، ان کے یہاں کسی عام حکم کی تخصیص یا مطلق کی تقیید وغیرہ بھی ’’نسخ‘‘ کے معنی میں آتے ہیں، اس کے برعکس متاخرین صرف اس صورت کو منسوخ قرار دیتے ہیں، جس میں کسی سابقہ حکم کو بالکلیہ ختم کر دیا گیا ہو۔
اس فرق کی وجہ سے متقدمین کے یہاں منسوخ آیات کی تعداد زیادہ تھی، جبکہ متاخرین کے یہاں یہ تعداد کافی کم ہے۔ متقدمین کے یہاں آیاتِ منسوخہ پانچ سو تک شمار کی گئی ہیں۔علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  (ت:۹۱۱ھ) نے ’’الإتقان‘‘ میں غور کرکے منسوخ آیات کی تعداد اکیس بتائی ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  (ت:۱۱۷۶ھ) نے ان میں تطبيق دے کر صرف پانچ آیات کو منسوخ فرمایا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ پانچ آیاتِ منسوخہ اس صورت کی ہیں، جس میں ناسخ اور منسوخ دونوں قرآن مجید میں موجود ہیں، اس کے علاوہ قرآن کریم میں ایسی بہت سی آیات ہیں جن میں ناسخ تو موجود ہے، لیکن منسوخ موجود نہیں، مثلاً تحویلِ قبلہ کی آیات، وغیرہ۔ 
علوم القرآن میں ناسخ و منسوخ کا عنوان اور موضوع اپنی اہمیت کے پیشِ نظر ہمیشہ مختلف جہات سے علماء کرام کے زیرِ بحث رہا ہے۔ نسخ کی لغوی و اصطلاحی تعریف، منسوخ آیات کی تعداد، نسخ الاحکام اور نسخ الاخبار، نسخ القرآن بالقرآن، نسخ القرآن بالسنۃ اور اس طرح کے دیگر عنوانات پر علماء کرام نے علوم و معارف کے دریا بہا دیے، اس موضوع پر مستقل کتب اور رسائل لکھے گئے، جن میں چند اہم کتابوں کے نام درج ذیل ہیں :
۱: الناسخ والمنسوخ في کتاب اللہ، مروي عن قتادۃ بن دعامۃ السدوسي (ت:۱۱۷ھ)
۲: الناسخ والمنسوخ، المنسوب لمحمد بن مسلم الزہري (ت:۱۲۴ھ)
۳: الناسخ والمنسوخ في القراٰن العزيز، أبو عبيد القاسم بن سلام الہروي (ت: ۲۲۴ ھ)
۴: الناسخ والمنسوخ في القراٰن الکريم، أبو عبد اللہ محمد بن حزم الأندلسي (ت:۳۰ھ)
۵: الناسخ والمنسوخ في کتاب اللہ عزوجل، أحمد بن محمد بن إسماعيل النحاس (ت: ۳۳۸ھ)
۶: الناسخ والمنسوخ، ہبۃ اللہ بن سلامۃ المقري (ت: ۴۱۰ ھ)
۷: الناسخ والمنسوخ في القرآن، عبد القاہر بن طاہر البغدادي (ت: ۴۲۹ ھ)
۸: الإيضاح لناسخ القرآن ومنسوخہ، مکي بن أبي طالب القيسي (ت: ۴۳۷ھ)
۹: نواسخ القرآن، عبد الرحمٰن بن علي الجوزي (ت: ۵۹۷ھ)
۱۰: الناسخ والمنسوخ، أبو منصور البغدادي (ت: ۷۵۱ ھ)
۱۱: ناسخ القرآن و منسوخہ، علي بن شہاب الدين الہمداني ( ت: ۷۸۶ ھ)
۱۲: الاٰيات المنسوخۃ في القرآن الکريم، عبد اللہ بن محمد الأمين الشنقيطي

اردو زبان میں اس موضوع پر کتبِ تفاسیر اور علوم القرآن پر مشتمل کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں، جن میں دیگر موضوعات پر کلام کرتے ہوئے اس موضوع کو بھی بڑی خوش اسلوبی اور تسلی بخش دلائل سے سمجھایا گیا ہے۔ سرِدست ہم یہاں ان تین مستند کتابوں کے نام درج کیے دیتے ہیں، جن میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے:
۱- ’’فہمِ قرآن ‘‘ از مولانا سعید احمد اکبر آبادی ؒ (متوفیٰ: ۱۴۰۵ھ) (۱)
۲- ’’آثار التنزیل‘‘ از علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحبؒ (متوفیٰ: ۱۴۴۱ھ) (۲)
۳- ’’ علوم القرآن ‘‘ از مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہٗ (۳)

میر سید علی ہمدانی  رحمۃ اللہ علیہ  کے حالاتِ زندگی 

عالمِ اسلام کے جلیل القدر صوفی بزرگ اور عظیم مبلغِ اسلام حضرت میر سید علی ہمدانی ؒ۱۲؍رجب المرجب ۷۱۴ ہجری کو ایران کے شہر ہمدان میں پیدا ہوئے۔ میر سید علی ہمدانی ؒ ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے ماموں سید علاء الدین ؒکے زیرِ سایہ حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے دیگر شیوخ کے ساتھ ساتھ شیخ محمود مزدقانی ؒاور شیخ علاء الدولۃ سمنانی ؒسے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ میر سید علی ہمدانی ؒ نے اپنی زندگی کا ایک خاصا وقت سیاحت میں گزارا، جس کے دوران آپ نے دنیا کے بہت سے ممالک کا دورہ کیا اور کئی لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ کشمیر میں اگرچہ آپ کی آمد سے پہلے بھی اسلام اور مسلمانوں کے نشان ملتے ہیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آپ کی مبارک تشریف آوری نے وادیِ کشمیر میں اسلام کی روح کو ایک نئی تازگی بخشی۔ آپ نے ہزاروں لوگوں کو جہاں مشرف بہ اسلام کیا، وہیں آپ نے اُس وقت کی حکومت پر بھی ایک اچھا خاصا اثر چھوڑا۔

وفات 
 

۶؍ ذو الحجہ ۷۸۶ ہجری کو میر سید علی ہمدانی ؒاس دارِ فانی سے رخصت ہو ئے۔ آپ کا مزار ختلان (ایران) میں موجود ہے۔ شاہ ہمدان میر سید علی ہمدانی ؒ کے تفصیلی حالات جاننے کے لیے ڈاکٹر شمس الدین احمد کی مفصل کتاب ’’ شاہِ ہمدان ، حیات اور کارنامے ‘‘ کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا ۔

تصانیف 
 

میر سید علی ہمدانی ؒ دینِ اسلام کے ایک عظیم داعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکمال مصنف بھی تھے۔ آپ کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد سو سے زائد بتائی جاتی ہے ۔ آپ کی چند مشہور کتابوں اور رسائل کے نام درج ذیل ہیں :
۱- ذخیرۃ الملوک         ۲- رسالہ دہ قاعدہ        ۳- شرح اسماء الحسنی  
۴- مشارب الاذواق    ۵- مرآۃ التائبين         ۶- رسالہ ذکریہ
۷- رسالہ تلقینیہ         ۸- رسالہ در بیانِ اعتقاد    ۹- رسالہ درویشیہ 
۱۰- ناسخ القرآن و منسوخہٗ، وغیرہم

رسالہ ناسخ القرآن و منسوخہ

میر سید علی ہمدانی ؒ کو قرآن کریم سے بے حد لگاؤ تھا۔ آپ بچپن میں ہی قرآن کریم حفظ کر چکے تھے۔ آپ اپنی تصانیف میں جگہ جگہ قرآنی آیات سے استدلال کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ نے جو خطوط مختلف لوگوں کو لکھے، وہ بھی قرآنی آیات سے مزین ہیں۔ اسی قرآنی شوق و ذوق کے پیشِ نظر میر سید علی ہمدانی ؒ نے ناسخ و منسوخ کے موضوع پر ایک مختصر رسالہ اپنے مریدین اور شاگردوں کی یاد دہانی کے لیے لکھا۔

رسالے کا نام 
 

اس رسالے کا ذکر کتابوں میں رسالہ ’’الناسخ والمنسوخ في القرآن الکريم‘‘، رسالہ ’’ناسخ القرآن و منسوخہ‘‘ اور رسالہ ’’ناسخ و منسوخ‘‘ کے نام سے ملتا ہے، لیکن چونکہ خود میر سید علی ہمدانی ؒ نے رسالے کے شروع میں لفظ ’’ ناسخ القرآن و منسوخہ‘‘ استعمال کیا ہے، اسی لیے زیادہ تر محققین اس کو اسی نام سے ذکر کرتے ہیں ۔

مندرجات 

یہ مختصر رسالہ شاہِ ہمدان میر سید علی ہمدانی ؒ نے اپنے متعلقین کی یاد دہانی کے لیے لکھا ہے، چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں کہ :
’’فہٰذا ما جمعتہ من ناسخ القرآن و منسوخہ تذکرۃً للطالبين مستوفقًا من اللہ و مستعينًا بہ، إنہٗ خير موفق و معين ۔‘‘
لہٰذا آپ نے اس رسالے میں قرآن کریم کی ناسخ و منسوخ آیات کا صرف تذکرہ کیا ہے اور مختصراً صحابہؓ و تابعینؒ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی بات کو مضبوط کیا ہے۔ آپ نے سینتیس سے زائد آیات پر کلام کیا ہے، لیکن آپ نے تفصیل کے بجائے اختصار کے دامن کو تھامے رکھنا زیادہ پسند فرمایا۔ میر سید علی ہمدانی ؒ نے اپنے اس رسالے میں جن اکابر مشاہیر کا حوالہ دیا ان اہلِ علم کے اسماء درج ذیل ہیں :حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا ، حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، امام سعید بن مسیب ؒ، امام سعید بن جبيرؒ، امام عامر بن شراحیل الشعبی ؒ، امام عطاء بن ابی رباحؒ، امام عکرمہ بن عبد اللہ ؒ، امام مجاہد بن جبر ؒ، امام مکحول بن ابی مسلم ؒ، امام ضحاک بن مزاحم اللآلي ؒ، امام عطاء بن ابی مسلم الخراسانی ؒ، امام محمود بن عمر الزمخشری، امام رفیع بن مہران الریاحی ؒ(ابی العالیۃ) ۔
سید فاروق بخاری صاحب ؒ اس رسالے کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ حضرت میر سید علی ہمدانیؒ کی تصانیف میں یہ رسالہ بھی دست بردِ زمانہ سے محفوظ رہا ہے۔ انڈیا آفس اور مرکزی دانشگاہ طہران کے کتاب خانوں میں اس کے نسخے موجود ہیں ۔ اس رسالے میں شیخ ہمدانیؒ نے قرآن کے مسئلہ ناسخ و منسوخ سے بحث کی ہے ۔ ہم نے اس کے اقتباس پڑھے ہیں، جن کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اس میں کوئی نئی بات نہیں کہی گئی ہے ۔ مؤلف نے اپنے تلامذہ اور صاحبِ علم ارادت مندوں کی تفہیم کے لیے یہ رسالہ لکھا ہے، اور متقدمین ہی سے خوشہ چینی کی ہے۔‘‘ (۴)
یہ بات صحیح ہے کہ شاہ ہمدان ؒ نے اس رسالے میں متقدمین سے ہی خوشہ چینی کی ہے، لیکن کئی مقامات پر میر سید علی ہمدانی ؒمنفرد بھی نظر آتے ہیں، شیخ خالد حسین اسماعیل نے ایسے ۲۷ مقامات کی نشاندہی کی ہے ۔ (۵)
سیدہ اشرف ظفر صاحبہ شاہ ہمدان ؒ کے اس رسالے کے بارے میں فرماتی ہیں :
’’ اس رسالہ میں آپ کلام مجید کی آیات کے نسخ و منسوخ کے مسئلہ کی وضاحت فرماتے ہوئے چند نسخ آیات زیرِ بحث لائے ہیں۔ اس مجموعے میں اکثر آیات جہاد، عبادات، قتال اور اوامر و نواہی کے بارے میں ہیں ۔‘‘(۶)

رسالے کا ماخذ

اگرچہ شاہ ہمدان ؒ نے اپنے اس رسالے میں صرف ایک مرتبہ علامہ زمخشری کا ذکر کیا ہے، لیکن تفسیر کشاف دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ ہمدان ؒ نے اس رسالے کی تیاری میں تفسیر کشاف سے بھرپور استفادہ کیا ہے اور بیشتر چیزیں اسی سے نقل کی ہیں۔

رسالے کی نسبت

یہ رسالہ بلا شبہ میر سید علی ہمدانی ؒ کا ہی ہے، ہماری اس بات پر ذیل میں شواہد پیش کیے جاتے ہیں :
۱- میر سید علی ہمدانی ؒ کے تقریباً تمام تذکرہ نگاروں نے اس رسالے کی نسبت آپ کی طرف کی ہے۔ مخطوطات کی فہرستوں میں بھی اس رسالے پر بطور مصنف میر سید علی ہمدانی ؒ کا ہی نام لکھا ہے ۔
۲- شاہِ ہمدان ؒ نے اس رسالے کے شروع میں اپنا نام خود اس طرح لکھا ہے:
’’فيقول العبد الفقير إلي اللہ الغني الجاني علي بن شہاب الہمداني عفا اللہ عنہ بکرمہٖ و وفقہٖ لشکر نعمہٖ ۔‘‘ 
میر سید علی ہمدانی ؒ نے اپنی کچھ تصانیف مثلاً ’’ذخیرۃ الملوک‘‘ اور ’’مشارب الأذواق‘‘ میں بھی اسی طرح شروع میں اپنا نام لکھا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ رسالہ بھی ان کا ہی ہے ۔
۳- یہ رسالہ ہندوستان کے مشہور اہلِ حدیث عالم مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی ؒ کے زیر مطالعہ رہا ہے اور انہوں نے بھی اس کی نسبت میر سید علی ہمدانی ؒ کی طرف ہی کی ہے۔ نواب صاحب مرحوم نے تین جگہ پر اس رسالے کا ذکر اپنی کتاب ’’إفادۃ الشيوخ بمقدار الناسخ والمنسوخ‘‘ میں کیا ہے ۔
مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی ؒ ناسخ و منسوخ پر کتابیں لکھنے والوں کا تعارف پیش کرتے ہوئے ان میں ایک نام’’ علی ہمدانی ‘‘ بھی ذکر کرتے ہیں۔(۷)
آیت: ’’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاۗءَ کَرْہًا ۝۰ۭ وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۝۰ۚ وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۝۰ۚ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَـیْــــًٔـا وَیَجْعَلَ اللہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا‘‘ (النساء ۱۹) کے متعلق نواب صدیق حسن خان بھوپالیؒ لکھتے ہیں کہ :
’’ولہٰذا ابن عباسؓ گفتہ: ’’ہي محکمۃ لم تنسخ‘‘ ذکرہ علي الہمداني في ناسخہ۔‘‘(۸)
یہاں مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی ؒ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کے قول کو شاہِ ہمدان میر سید علی ہمدانی ؒ کے رسالہ ’’ناسخ القرآن و منسوخہ‘‘ سے نقل کیا ہے۔ یہ قول شاہ ہمدان میر سید علی ہمدانی ؒ نے اپنے رسالے میں اس آیت کے تحت لکھا ہے۔ میر سید علی ہمدانی ؒ لکھتے ہیں :
’’و عن ابن عباسؓ، ہي محکمۃ يعني لم تنسخ۔‘‘ (۹)
اسی طرح نواب صدیق حسن خان بھوپالی ؒ آیت ’’وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَایُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ۝۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ‘‘ (التوبۃ:۳۴) کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
’’علي ہمداني گفتہ اصح آن است کہ منسوخ نیست۔ ‘‘ (۱۰)
یہاں بھی نواب صاحب ؒ نے میر سید علی ہمدانی ؒ کے رسالے سے ہی دلیل پیش کی ہے۔ یہ بات اس آیت کے تحت میر سید علی ہمدانی ؒ نے اپنے رسالے میں لکھی ہے، چنانچہ میر سید علی ہمدانی ؒ لکھتے ہیں کہ:
’’والأصح أنہا لم تنسخ۔‘‘ (۱۱)

مخطوطات

شاہِ ہمدان ؒ کے اس رسالے کے مخطوطات باقی رسائل کے مقابلے میں نادر و نایاب ہیں، راقم الحروف کی معلومات کی حد تک اس کے درج ذیل مخطوطات ہیں :
۱- سید محمد حسین جلالی کے بقول اس کا ایک مخطوطہ مکتبہ آستان قدس رضوی، قم (ایران) میں مجموعہ نمبر ۵۹۹ کے اندر صفحہ ۶۹ سے ۷۷ تک شامل ہے، جس کی کتابت ۸۸۱ ہجری میں ہوئی ہے ۔(۱۲)
۲- نسخہ مکتبہ برٹش میوزیم، انڈیا آفس لندن رقم  IO   ( ۹۸۱ Delhi ‎)  ۴۳۱۴
۳- مکتبہ دار الکتب الظاہریۃ مصر میں ایک نسخہ رقم مجموعہ: ۴۴۲۵ ،صفحہ: ۷۶ سے ۷۷ تک موجود ہے، جس کو تاج الدین محمد بن زہرۃ الحسینی الحلبی نے ۹۰۷ ہجری میں لکھا ہے۔
۴- مکتبہ پرنسٹن یونیورسٹی مجموعہ جاریت، رقم ۳۴۲ B(رقم تسلسل: ۲۰۱۵ ) میں ایک نسخہ صفحہ: ۲۰۷ سے ۲۰۹ تک شامل ہے، جس کو ابن محمد شریف خاتون آبادی نے ۱۰۲۸ ہجری میں لکھا ہے۔
۵-نسخہ مکتبہ آستان قدس رضوی، قم ( ایران) رقم مجموعہ: ۳۳۷۵۹
۶-مکتبہ آستان قدس رضوی لائبریری میں ایک اور نسخہ رقم: ۶۷۵۷ پر موجود ہے جو ۱۰۸۸ ہجری میں لکھا گیا ہے ۔
۷-مکتبہ آستان قدس رضوی میں ہی رقم ۱۹۱۰۳ پر ایک اور نسخہ بھی موجود ہے جو ۱۲۳۳ ہجری میں لکھا گیا ہے۔
۸-نسخہ مکتبہ مجلس شورای اسلامی ایران، رقم مجموعہ: ۱۸۳۱۳ صفحہ: ۵۸ سے ۵۹ تک۔ اس کی کتابت ۱۲۶۰ ہجری میں ہوئی ہے۔
۹-نسخہ مکتبہ مجلس شورای اسلامی ایران رقم مجموعہ: ۱۲۹۷، صفحہ: ۴۷ تا ۴۹۔
۱۰- نسخہ مکتبہ اماسيا بايزيد ترکی، رقم: ۵۱۹ Ba۰۵
۱۱- نسخہ مکتبہ تہران یونیورسٹی، رقم: ۲۸۳۰
۱۲- نسخہ مکتبہ تہران یونیورسٹی، رقم: ۱۲۹۷
۱۳- نسخہ مکتبہ تہران یونیورسٹی، رقم: ۳۹۱۶
۱۴- نسخہ مکتبہ تہران یونیورسٹی، رقم: ۱۶۶۷
۱۵- نسخہ مکتبہ لینن گراڑ روس، رقم: ۲۰۰ ۲۲۸۴ B
۱۶- نسخہ مکتبہ متحف الآسیوی ( مجموعہ بخاری) رقم: ۱۰۸۰
۱۷-مکتبہ آیت اللہ مرعشی ایران، قم میں ایک نسخہ رقم: ۸۳۲۱ پر موجود ہے، جس کی کتابت ۱۲۵۲ ہجری میں ہوئی ہے۔
 ۱۸-مکتبہ آیت اللہ مرعشی میں ہی دوسرا نسخہ رقم: ۱۱۳۵۷ پر موجود ہے ۔
۱۹- مکتبہ گلپایگانی قم میں رقم ۴۶۷۱ پر یہ رسالہ موجود ہے ۔
۲۰- مکتبہ گلپايگانی قم میں ایک اور نسخہ رقم: ۸۴۷۶ پر موجود ہے ۔
۲۱- مکتبہ فیضیہ قم میں ایک نسخہ رقم: ۸۴۷ پر موجود ہے ۔
۲۲- مکتبہ دانشگاہ اصفہان میں ایک نسخہ رقم: ۳۶۱ پر موجود ہے جو ۱۲۲۸ ہجری میں لکھا گیا ہے ۔
۲۳- مکتبہ ملی تہران میں ایک نسخہ رقم: ۴۶۳۴ پر موجود ہے جو ۱۳۶۹ ہجری میں لکھا گیا ہے ۔
۲۴- مکتبہ آران کاشان: محمد ہلال، میں ایک نسخہ رقم: ۱۷ پر موجود ہے ۔

مطبوعہ نسخے

یہ رسالہ ہماری معلومات کے مطابق تین بار شائع ہوا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱- اس رسالے کو محمد جواد النجفی نے اپنی تحقیق سے شائع کیا ہے۔ تلاش کے باوجود یہ ایڈیشن ہمیں دستیاب نہ ہو سکا ۔
۲- شیخ حاتم صالح الضامن نے ۲۰۱۱ ء میں مجلہ آفاق (مرکز جمعۃ الماجد) کے شمارہ نمبر:۷۳ میں اس رسالے کو اپنی تحقیق سے شائع کیا۔ اس میں انہوں نے دار الکتب الظاہریۃ مصر ( رقم: ۴۴۲۵) کے نسخے کو پیش نظر رکھتے ہوئے متن کی تصحیح کی ہے۔
۳- یہ رسالہ شیخ خالد حسین اسماعیل کی تحقیق سے ۲۰۲۱ء میں ’’مجلۃ البحوث الأکادمیۃ‘‘ شمارہ نمبر: ۱۷ میں بھی شائع ہوچکا ہے، جس میں محقق نے مکتبہ آستان قدس رضوی (رقم: ۳۳۷۵۹)، مکتبہ دار الکتب الظاہریۃ ( رقم: ۴۴۲۵) اور مکتبہ پرنسٹن یونیورسٹی (رقم جاریت ۳۴۲ B) کو پیش نظر رکھتے ہوئے متن کی تصحیح کی ہے۔

حوالہ جات

(۱) مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ ، فہم قرآن، ادارہ اسلامیات، لاہور، صفحہ: ۵۴
(۲) علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحبؒ ، آثار التنزیل ، دار المعارف لاہور، صفحہ: ۴۳۵
(۳) مفتی محمد تقی عثمانی ، علوم القرآن ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، صفحہ: ۱۶۵
(۴) سید فاروق بخاریؒ ، کشمیر میں عربی علوم اور اسلامی ثقافت کی اشاعت، بخاری منزل، سرینگر، صفحہ: ۱۶۵
(۵) مجلہ البحوث الاکادمیۃ، شمارہ نمبر: ۱۷ ، سال ۲۰۲۱ء
(۶) سیدہ اشرف ظفر ، امیر کبیر سید علی ہمدانیؒ ، ندوۃ المصنفین، لاہور، صفحہ: ۲۹۳
(۷) مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالیؒ ، افادۃ الشيوخ بمقدار الناسخ والمنسوخ، مطبع محمدی، لاہور، صفحہ: ۳
(۸) مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالیؒ ، افادۃ الشيوخ بمقدار الناسخ والمنسوخ، مطبع محمدی، لاہور، صفحہ: ۳۶
(۹) رسالہ ناسخ القرآن و منسوخہ ، مخطوط
(۱۰) مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالیؒ ، افادۃ الشيوخ بمقدار الناسخ والمنسوخ، مطبع محمدی، لاہور، صفحہ: ۵۰
(۱۱) رسالہ ناسخ القرآن و منسوخہ ، مخطوط
(۱۲) سید محمد حسین الحسینی الجلالی، فہرس التراث، دار الولاء، صفحہ: ۴۱۱
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے