بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے بچوں کو زکوٰۃ دینا، شوکت خانم یا ایدھی سینٹر میں زکوٰۃ دینا


سوال

 1 زکاۃ ادا کرنے کے لیے کسی بندے کو اس کا مالک بنانا لازمی ہے؟

2۔مدرسہ میں بچے پڑھتے ہیں،تو اس صورت میں وہ زکاۃ کے مالک نہیں ہیں،پھر وہ زکاۃ ادا ہو جائے گی؟

3۔ شوکت خانم ہسپتال یا ایدھی سینٹر میں زکاۃ دینا جائز ہے؟

جواب

1۔۔زکاۃ ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے،اس لیے رفاہی کاموں،شفاخانوں اور مدارس ومساجد کی تعمیر  وغیرہ (اور وہ تمام صورتیں جن میں مستحقِ زکاۃ کو مالک نہ بنایاجائے ان) میں زکاۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔

2۔۔ اگر بچہ سمجھ دار اور تمیز والا ہو تو اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، اگر بچہ بہت چھوٹا اور ناسمجھ ہے اور اس کا ولی مستحقِ زکاۃ ہے تو اس کے ولی کے اس کی طرف سے قبضہ کرلینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، ایسے ناسمجھ بچوں کاخود قبضہ کرنا معتبر نہیں ہے،  اگر بچے کا والد مال دار ہے تو ایسے بچے  کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔

مدارس میں عموماً بالغ اور سمجھ دار طلبہ کو زکاۃ کا مالک بنایا جاتاہے، اور ان کی وکالت میں مدرسے کی انتظامیہ یہ رقم طلبہ کی ضروریات میں صرف کرتی ہے، اس طرح زکاۃ ادا ہوجاتی ہے۔

'' ولو قبض الصغیر وهو مراهق جاز، وکذا لو کان یعقل القبض''۔  (الفتاویٰ الهندیة ۱/۱۹۰)

'' ویصرف إلی مراهق یعقل القبض'' ۔ (شامي / باب المصرف ۳/۲۹۱ زکریا)

''سئل عبد الکریم عمن دفع زکاة ماله إلی صبي؟ قال: إن کان مراهقاً یعقل الأخذ یجوز، وإلا فلا. وفي الخانیة: وکذا لو کان الصبي یعقل القبض بأن کان لایرمي به ولا یخدع عنه'' ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیة ۳/۲۱۱ )

3۔۔ جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں  یہ تفصیل آچکی ہے کہ زکاۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے تملیک ضروری ہے،  لہٰذا جو ادارہ یا ہسپتال مسلمان غیر سید مستحقِ زکاۃ فرد کو زکاۃ کا مالک بناکر زکاۃ صرف کرتاہو  اسے زکاۃ دینا درست ہے، اور جو ادارہ / ہسپتال اس کا اہتمام نہ کرتاہو  اسے زکاۃ دینا درست نہیں ہے، اور جہاں شبہ ہو وہاں زکاۃ دینے کی بجائےخود مستحق تلاش کرکےاسے  یا کسی مستند دینی ادارے کو زکاۃ دی جائے۔مذکورہ ضابطے کی روشنی میں اداروں کا نظام دیکھ کر زکاۃ دینے کے جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ کیا جاسکتاہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں