اگر دو مسجدیں باہم اس قدر قریب ہوں کہ ایک کی اذان دوسری مسجد میں سنائی دیتی ہو تو کیا ایک مسجد کی اذان دوسری کے لیے کافی ہے یا دوسری مسجد میں مستقل اذان ہونی چاہیے؟ اگر دوسری مسجد میں مستقل اذان ہونی چاہیے تو یہ صرف افضل واولی کے درجے کی چیز ہے یا سنتِ مؤکدہ ہے؟
جب دو مسجدیں قریب ہوں تو دونوں میں علیحدہ علیحدہ اذان مسنون ہے، ایک مسجد کی اذان دوسری کے لیے کافی نہیں ہے۔ مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے اذان سنتِ مؤکدہ ہے؛ لہذا اذان ترک کرنا خلافِ سنت اور مکروہ تحریمی ہے۔
فتاوی محمودیہ میں ہے :
’’دونوں مسجدوں میں علیحدہ علیحدہ اذان مسنون ہے، صرف ایک پر اکتفا کرنا خلافِ سنت ہے، جو لوگ ایسا کریں گے وہ تارکِ سنت ہوں گے‘‘۔ (۵ / ۳۹۹، دار الفتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)
الفتاوى الهندية (1 / 54):
’’ويكره أداء المكتوبة بالجماعة في المسجد بغير أذان وإقامة‘‘.
الفتاوى الهندية (1 / 53):
’’الأذان سنة لأداء المكتوبات بالجماعة، كذا في فتاوى قاضي خان. وقيل: إنه واجب، والصحيح أنه سنة مؤكدة‘‘.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 103):
’’وهي السنن المؤكدة القريبة من الواجب التي يضلل تاركها؛ لأنّ تركها استخفاف بالدين‘‘. فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200328
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن