بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

15 ماہ سے شوہر لاپتا ہو تو نکاحِ ثانی کا حکم


سوال

ایک عورت کا شوہر  15 ماہ سے لاپتا ہے، شوہر کا تعلق افغانستان سے ہے، 15 ماہ پہلے کافی پریشانی کی حالت میں افغانستان گیا تھا, اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں، اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ شوہر افغانستان جاتا رہا، لیکن وہاں پہنچ کر اطلاع وغیرہ کرتا تھا، اس بار کوئی اطلاع نہیں اور نہ ہی اس کے والدین کا فون لگ رہا ہے, اس کے دوستوں کو بھی اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں،  یہاں شوہر کا کوئی رشتہ دار وغیرہ بھی نہیں ہے،  یہاں کرائے کے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا،  اب عورت اسی گھر میں  خود کرایہ ادا کر رہی ہے، جاتے ہوئے پانچ ہزار روپے چھوڑ گیا تھا اور پانچ بچے ہیں۔

پوچھنا یہ ہے کہ یہ خاتون دوسری شادی کر سکتی ہے؟ کیوں کہ بچوں کا پالنا مشکل ہورہا ہے یا انتظار کرے تو کتنا عرصہ کرے؟

وضاحت: (1)سخت مجبوری کی حالت ہے، شوہر نے جانے سے پہلے صرف پانچ ہزار روپے چھوڑے تھے، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑا، مجبوری کی وجہ سے عورت کسی غیر قانونی  کام  یا بدکاری وغیرہ  میں بھی مبتلا ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ سخت مجبوری ہے ، ایک تو بچوں کی پرورش کا مسئلہ ہے اور دوسرا یہ  کہ عورت جوان ہے .

(2)شوہر کے ٹھکانے  کا بالکل پتا نہیں ہے، نہ گھر  کا، نہ علاقے  کا اور شہر کا کوئی پتا ہے، اس کے دوستوں سے رابطہ کیا ہے تو انہیں بھی اس کے بارے میں کوئی علم نہیں، نہ تو شوہر کے جینے کا پتا ہے اور نہ مرنے کا پتاہے۔

جواب

شوہر کے غائب ہوجانے کی صورت میں  اگر بیوی کے لیے پاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہ ہو تو عورت عدالت میں مقدمہ دائر کرے،عدالت سرکاری تعاون سے تحقیقات کرنے کے بعد ایک سال کی مدت مقرر کرے، سال گزرنے پر بھی شوہر نہ آئے تو عدالت فسخِ نکاح کا فیصلہ کردے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد عدتِ وفات (حاملہ نہ ہونے کی صورت میں چار ماہ دس دن اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضعِ حمل یعنی بچہ کی پیدائش) گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔

اور اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے  پہلے شوہر سے بدستور قائم رہےگا، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛  اس لیے دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی لازم ہوگی۔ اور اگر اس خاتون کی دوسرے نکاح کی رخصتی بھی ہو گئی ہو تو  پہلے شوہر کو اس کے ساتھ صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک وہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:

’’اس صورت میں عورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ عدالت میں دعویٰ تفریق بوجہ مفقود الخبری شوہر دائر کرے، حاکم بعد تحقیقات ایک سال کی مدت انتظار کے لیے مقرر کردے، اگر اس عرصہ میں زوجِ غائب نہ آئے تو نکاح فسخ کردے، تاریخِ فسخ سے عدت گزار کر دوسرا نکاح کرلے۔ ایک سال کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے، ذرائعِ رسل ورسائل کا وسیع ہونا اس شرط کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ذرائع کی وسعت اس امر کو لازم ہے کہ گم شدہ شوہر کا پتا معلوم ہوجائے کہ وہ زندہ ہے کہ نہیں،آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے متعلق معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، تمام ذرائع استعمال کرلیے جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیا جاتاہے، لیکن بعد میں فیصلہ غلط ہوتاہے۔

غرض یہ کہ ایک سال کی مدت اس مصلحت کے لیے ہے کہ امکانی حد تک شوہر کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچاجائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 414):

"(ولو قضى على الغائب بلا نائب ينفذ) في أظهر الروايتين عن أصحابنا".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 414):

"قلت: ويؤيده ما يأتي قريبا في المسخر، وكذا ما في الفتح من باب المفقود لايجوز القضاء على الغائب إلا إذا رأى القاضي مصلحة في الحكم له وعليه فحكم فإنه ينفذ؛ لأنه مجتهد فيه اهـ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 295):

وقال في الدر المنتقى: ليس بأولى، لقول القهستاني: لو أفتى به في موضع الضرورة لا بأس به على ما أظن اهـ

المبسوط للسرخسي ـ موافق للمطبوع (11/ 64):

"وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200978

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں