بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہنڈی سے رقم بھیجنا


سوال

"ہنڈی"  اور "حوالہ"  کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ہمارے یہاں  یہ طریقہ رائج ہے، یہاں حوالہ والے کو پاکستانی پیسہ دے دیتا ہے، حوالہ والا اس کو ایک پرچی دیتا ہے اور وہ ایران میں حوالہ کی پرچی دکھا کر اس سے ایرانی "تمن" لیتا ہے، اس درمیان کمی زیادتی بھی ہوتی ہے۔  کیا کرنسی متحد الجنس ہےیا مختلف الجنس؟ برائے کرم مدلل جواب تحریر کریں!

جواب

"ہنڈی"  کا کاروبار ملکی وبین الاقوامی قوانین کی رو سے ممنوع ہے، اس لیے رقم کی ترسیل کے لیے جائز قانونی راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔  البتہ اگر کسی نے ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوائی  تو ہنڈی کے کاروبار کرنے والے پر لازم ہو گا کہ جتنی رقم اس کو  دی جائے وہ  اتنی ہی رقم آگے پہنچا دے، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہے۔ ہاں بطورِ فیس الگ سے طے شدہ اضافی رقم بطورِ معاوضہ  لی جاسکتی ہے۔کرنسیوں کے مختلف ہونے کی صورت میں ( جیسا کہ سوال میں ایک طرف درہم ہے اور دوسری طرف پاکستانی روپیہ ہے) ادائیگی کے وقت اس ملک کی کرنسی کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق ادائیگی کی جائے۔

ملحوظ رہے ہنڈی کا معاملہ "بیعِ صرف" کا نہیں ہے کہ اس میں جانبین کا مجلسِ عقد میں قبضہ ضروری ہو، بلکہ ہنڈی بیع ہے ہی نہیں، ہنڈی کا معاملہ شرعاً قرض ہے، اور اس پر جو الگ سے طے شدہ اجرت لی جاتی ہے وہ اجارہ ہے، اور یہ دونوں الگ الگ معاملہ ہنڈی میں انجام پاتے ہیں، اور قرض میں جانبین سے قبضہ ضروری نہیں ہے۔

الفقه الإسلامي وأدلته (5/ 331):

"ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وصلاً (وثيقة)، يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامناً لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجراً أو عمولةً على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية أو التلكس فقط؛ لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد. وهذان العقدان: الصرف والتحويل القائم على القرض هما الطريقان لتصحيح هذا التعامل، فيما يبدو لي".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200135

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں