بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو کے گھر میں پیدا ہونے سے اسلام کے بغیر زندگی گزارنا ضروری نہیں


سوال

ایک ہندو کو میں نے بولا :تم مسلمان ہو جاؤ، تو اس نے بولا کہ اگر اللہ مجھے مسلمان کرتا تو مسلمان کے گھر میں  پیدا کرتا، اب اللہ نے مجھے ہندو کے گھر میں  پیدا کیا ہے ؛ اس لیے میں  ہندو صحیح ہوں۔ اب میں  اس کو کیا جواب دوں؟

جواب

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو مجبورِ محض نہیں بنایا ، بلکہ اس میں خیر اور شر قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہے، اور عقل وادراک عطا کرکے اسے خود ہدایت وبھلائی یا گمراہی وبرائی منتخب کرنے میں آزاد رکھاہے، دنیا میں انسان کی یہی آزمائش ہے کہ وہ کون سی راہ منتخب کرتاہے، اسی اختیاری انتخاب اور پھر اس کے مطابق زندگی گزارنے کے نتیجے میں جزا وسزا کا نظام قائم کیاہے۔ راہِ راست کے انتخاب کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کا سب سے بڑا عطیہ انسان کی عقل سلیم ہے، انسانی عقل کو درست سمت میں رواں رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جابجا اپنی قدرت کے مظاہر پھیلادیے ہیں، جو قدم قدم پر اپنی طرف متوجہ کرکے انسان کو وحدہ لاشریک ذات کی طرف کھینچتے ہیں، اور انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کس سمت میں جارہاہے۔

انسان کا کسی خاص گھرانے یا خاص ملک میں پیدا ہوجانا اسے مجبور نہیں کرتا کہ وہ اپنی عقل کو استعمال نہ کرے، اسے یوں سمجھیے کہ ایک گھر کی طرح پورا ملک بھی ہے، ایک ملک میں رہنے والے لوگ گویا ایک گھرانے کے مثل ہیں، اب اگر عقل کا یہی پیمانہ مقرر ہو کہ کسی گھرانے میں پیدا ہونے والا وہی مذہب اختیار کرے جو اس گھر میں پہلے سے موجود ہے، تو کوئی ملک (مثلاً: یہودی، عیسائی یا اسلامی ملک) یہ قانون بھی بنا سکتاہے کہ جو شخص اس ملک میں پیدا ہوگا وہ اس ملک کا مذہب اختیار کرنے کا پابند ہوگا ؛ کیوں کہ وہ اس ملک میں پیدا ہوا ہے جہاں کا مذہب فلاں ہے!! ظاہر ہے کوئی صاحبِ عقلِ سلیم اسے معیار تسلیم نہیں  کرے گا؛ بلکہ انصاف پسند شخص یہی کہے گا کہ جو مذہب حق ہو اسے اختیار کیا جائے، خواہ کسی بھی ملک میں آبادہو۔ اسی طرح کسی خاص گھرانے میں پیدا ہونا انسان کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ناحق مذہب کو اختیار کرے جو وہاں موجود ہے۔ بلکہ انسانی عقل اسے حق کا طالب بناتی ہے، اور اسلام کی حقانیت (اللہ تعالیٰ کی توحید، عقیدہ آخرت اور انبیاء کرام علیہم السلام کی رسالت) پر کافی وشافی عقلی ونقلی دلائل قائم ہوچکے ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ وجودِ باری تعالیٰ اور وحدتِ باری تعالیٰ کی شہادت دے رہاہے۔

اس لیے مذکورہ شخص کو بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت (عقل) کو درست سمت میں استعمال کرے، آپ اسے دین کی باتیں مثبت انداز میں پیش کریں، اور اسلامی اخلاق اختیار کرکے متاثر کریں، تبلیغِ دین اور دوسروں کی اصلاح کے لیے سب سے بنیادی چیز اور کارگر نسخہ یہی ہے کہ داعی اور مبلغ خود باعمل وباکردار ہو، ہم خود اسلامی اخلاق و احکام کے پابند ہوجائیں تو امید ہے کہ بہت سے غیر مسلم ہمیں دیکھ کر ہی اسلام قبول کرلیں۔نیز آپ اسے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تم پابندی کے ساتھ کثرت سے یہ دعا مانگنا شروع کردو : ' اے اللہ اسلام اور ہندومت میں سے جو مذہب آپ کے ہاں حق ہے اس کی حقانیت آپ میرے دل میں ڈال دیجیے، اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائیے!' اگر وہ صدقِ دل سے یہ دعا مانگے گا تو ان شاء اللہ اسے ضرور ہدایت نصیب ہوجائے گی۔

بہرحال مذکورہ جواب تو معقولی ہے جو ایک غیر مسلم کی فہمائش کے لیے بیان کیا جاسکتاہے، ایک مسلمان جو احادیث مقدسہ پر ایمان رکھتاہے اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرامین میں اس طرح کے مواقع کے لیے واضح ہدایت اور قطعی جواب ارشاد فرمایاہے، چناں چہ جامع ترمذی اور بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر پیدا ہونے والابچہ ملتِ اسلامیہ پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مشرک بنا دیتے ہیں، عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ﷺ جو بچے جوان ہونے سے پہلے فوت ہوگئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ اگر بڑے ہوتے تو کیا کرتے۔
نیز  مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 'اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے کہ میں نے تمام بندوں کو دینِ  حنیف ہی پر پیدا کیاہے پھر اُن کوشیاطین گھیر لیتے ہیں اور دینِ  فطرت سے اُن کوبہکا دیتے ہیں اور وہ چیزیں اُن پر حرام کرڈالتے ہیں جو میں نے اُن کے لیے حلال کی تھیں۔' 
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نےہر انسان کے دل میں ایمان کا تخم رکھا ہے، اب اگر وہ گردوپیش کے ماحول سےمتاثرنہ ہو، بلکہ صحیح راستے اور صراطِ مستقیم کی طلب میں لگ جائے تو اسے ایمان و ہدایت کی دولت  ضرور نصیب ہوگی، ہندو کے گھر میں پیدا  ہونے سے یہ  صلاحیت ختم نہ ہوگی ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200809

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں