بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ہفتہ کے دن مچھلی کھانے کا حکم


سوال

ہفتہ والے دن مچھلی کھانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

بنی اسرائیل کی ایک بستی  ’’ایلہ‘‘  بحرِ قلزم  کے قریب آباد تھی، اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن مچھلی کھانے سے منع فرمایا تھا اور یہ اس قوم کی آزمائش تھی،  لیکن جب وہ اس آزمائش میں ناکام ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو پسِ پشت ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بندر اور خنزیر بنا دیا۔

یہ آزمائش اور یہ حکم اسی امت کے ساتھ خاص تھی، امتِ محمدیہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے یہ حکم نہیں ہے۔ نیز اسلام کے روشن واضح اور باسہولت احکام آنے کے بعد پچھلی امتوں کے ان احکام کو نیکی سمجھ کر اختیار کرنا جن کا ہماری شریعت نے التزام نہیں کیا، اس سے قرآنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ میں منع کیا گیا ہے؛ لہذا  ہفتہ والے دن نہ صرف بلا کسی شک و تردد کے مچھلی کھانا جائز ہے، بلکہ اگر کوئی اس دن مچھلی کھانے میں کراہت سمجھتا ہے یا اس دن مچھلی نہ کھانا زیادہ بہتر سمجھتا ہے تو اس کا یہ طرزِ عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔

سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{یا ایها الذین اٰمنوا ادخلوا في السلم کافة ولاتتبعوا خطوات الشیطٰن انه لکم عدو مبین}  [البقرة:208 ]

ترجمہ: اے ایمان والو! مکمل طور پر اسلام میں داخل ہوجاؤ ، اور شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو؛ اس لیے کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔

مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیات اس موقع پر نازل ہوئیں جب ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے جو یہودیت سے مسلمان ہوئے تھے، انہوں نے یہ سوچ کرکہ یہودیت میں اونٹ کا گوشت کھانا بالکلیہ منع ہے، اور اسلام میں اسے کھانا فرض یا واجب نہیں ہے، بلکہ صرف مباح ہے، اس لیے اگر میں اونٹ کا گوشت نہ کھاؤں تو اسلام کے کسی حکم کی صریح مخالفت بھی نہیں ہوگی اور شریعتِ موسویہ پر بھی عمل ہوجائے گا، گویا اپنے گمان کے مطابق جمع بین الخیرین کا تصور باندھا۔ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سے سختی سے منع فرمادیا کہ اسلام قبول کرنے کا مطلب تمام لوازمات سمیت اسلام قبول کرنا ہے، یہ طرز مسلمان کے شایانِ شان نہیں ہے، اس لیے نیک لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس سے رک جائیں۔ چناں چہ ان صحابی رضی اللہ عنہ نے ایسا خیال بھی ذہن سے نکال دیا۔ قرآنِ پاک نے اسے شیطان کی پیروی کے مترادف قرار دیا ہے، اس لیے کسی کے لیے روا نہیں ہے کہ اسلام کے روشن اور واضح و سہل احکام آنے کے بعد سابقہ شریعتوں کے منسوخ شدہ احکام کو کارِ ثواب یا تقویٰ سمجھ کر اختیار کرے۔

تفسير ابن كثير ت سلامة (3/ 493):
"يقول [الله] (1) تعالى، لنبيه صلوات الله وسلامه عليه: {واسألهم} أي: واسأل هؤلاء اليهود الذين بحضرتك عن قصة أصحابهم الذين خالفوا أمر الله، ففاجأتهم نقمته على صنيعهم واعتدائهم واحتيالهم في المخالفة، وحذر هؤلاء من كتمان صفتك التي يجدونها في كتبهم؛ لئلا يحل بهم ما حل بإخوانهم وسلفهم. وهذه القرية هي "أيلة" وهي على شاطئ بحر القلزم".

التفسير الواضح (1/ 779):

"وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ لَا تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (163)

واسألهم يا محمد عن أهل القرية القريبة من البحر وقت أن اعتدوا على حدود الله، وتجاوزوها يوم السبت- وهو يوم يعظمونه بترك العمل فيه وجعله للعبادة- إذ تأتيهم أسماكهم يوم السبت ظاهرة على وجه الماء، قريبة لا تحتاج في الصيد إلى عناء، وفي غير يوم السبت تختفى ولا تظهر.
مثل ذلك البلاء المذكور نبلو السابقين والمعاصرين، ونعاملهم معاملة من يختبر حالهم ليجازى كلا على عمله، كل ذلك بسبب ما كانوا يفسقون ويخرجون عن طاعة الله".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں