بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھوڑے کے گوشت کا حکم کیا ہے؟ جب کہ اب وہ آلہ جہاد نہیں


سوال

آج کے دور میں تو گھوڑے کے آلہ جہاد ہونے کی علت نہیں ہے تو اب کیا حکم ہو گا؟ 

جواب

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک گھوڑے کاگوشت  آلہ جہاد ہونے کی وجہ سے  مکروہِ تحریمی  ہے، اور فقہ حنفی میں اسی قول پر فتوی ہے، آج کے دور میں بھی جنگ کے دوران اور سرحدات کی حفاظت کے لیے دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے مختلف اہم پوسٹ تک پہنچنے میں گھوڑوں کا استعمال کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے ہر ملک کی قومی پریڈ میں فوج/ پولیس کے گھڑسوار دستے بھی پیش ہوتے ہیں، اور حدیثِ پاک میں ہے کہ گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر لکھ دی گئی ہے، اس لیے بالکلیہ یہ کہنا کہ گھوڑے اب آلہ جہاد نہیں رہے، درست نہیں؛ لہذا گھوڑے کے گوشت کا اب بھی وہی حکم ہوگا. 

الفتاوى الهندية (5/ 290):

" يكره لحم الخيل في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى، خلافاً لصاحبيه، واختلف المشايخ في تفسير الكراهة، والصحيح أنه أراد بها التحريم، ولبنه كلحمه، كذا في فتاوى قاضي خان. وقال الشيخ الإمام السرخسي: ما قاله أبو حنيفة رحمه الله تعالى أحوط، وما قالا أوسع، كذا في السراجية".

بدائع الصنائع (5/ 38):

"وأما لحم الخيل فقد قال أبو حنيفة رضي الله عنه: يكره، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله: لايكره، وبه أخذ الشافعي رحمه الله".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں