بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

متنفل نے قربانی کا جانور خریدا تو بیچنے کا حکم/ گھر بنانے کے لیے رکھی ہوئی رقم میں زکاۃ


سوال

1- متنفل نے قربانی کے لیے جانور خریدا،  اب ایامِ نحر سے پہلے پہلے اس کے لیے جانور بیچنا جائز ہے یا نہیں؟

2- اگر کسی کا ذاتی مکان نہ ہو اور وہ کرایہ کے گھر میں رہتا ہو اور اس کے پاس نصاب سے زائد مالیت ہو،  لیکن وہ اس نے ذاتی مکان خریدنے کے  لیے جمع کیا ہو تو کیا ایسے شخص پر قربانی اور زکاۃ  بعد حولان الحوال واجب ہوگی یا نہیں؟مختصر یہ کہ ذاتی مکان کے لیے جمع کی گئی رقم پر ضرورتِ  اصلیہ کا اطلاق ہوگا یا نہیں؟

جواب

1-متنفل اگر غریب ہے تو قربانی کی نیت سے خریدنے کے بعد  متنفل نہ رہا,  بلکہ اس کے ذمہ لازم ہے کہ اسی جانور کی قربانی کرے۔اگر امیر ہے تو بیچ سکتا ہے۔

2- رقم کسی صورت میں  بھی رکھی ہو شرائطِ  وجوب پائی جائیں تو  اس پر زکاۃ واجب  ہے۔ ارادے کااعتبار نہیں کہ گھر  کے لیے رکھی ہے یا شادی کے لیے۔

"فاضلاً عن مسکنه وخادمه وفرسه وسلاحه وثیابه وأثاثه ونفقة عیاله وخدمه وکسوتهم وقضاء دیونه". (بدائع الصنائع ۲؍۲۹۷ )

"وأما الذي یجب علی الفقیر دون الغني فالمشتري للأضحیة إذا کان فقیراً بأن اشتریٰ فقیر شاةً ینوي أن یضحي بها". (بدائع الصنائع، کتاب التضحیة)
"إن الزکاة تجب في النقد کیف ما أمسکه للنماء أو للنفقة". (الشامیة، ۳؍ ۱۷۹۱ )
"وسبب افتراضها ملك نصاب حولي ... فارغ عن حاجته الأصلیة؛ لأن المشغول بها کالمعدوم، وفسره ابن ملك بما یدفع عنه الهلاك تحقیقاً کثیابه کالنفقة و دور السکنیٰ وآلات الحرب والثیاب والمحتاج إلیها لدفع الحر أو البرد أو تقدیراً کالدین وآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الرکوب وکتب العلم لأهلها، فإذا کان له دراهم مستحقة بصرفها إلی تلك الحوائج صارت کالمعدومة". (در مختار مع الشامي ۳؍۱۷۴-۱۷۹ ) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم


فتوی نمبر : 144012200090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں