بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گونگے شخص کی طلاق کا حکم


سوال

گونگے  آدمی کی طلاق واقع ہوگی یا نہیں ؟

جواب

گونگے شخص کی طلاق اشارہ سے  چند شرائط کے ساتھ واقع ہوگی، اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک بھی شرط مفقود ہوئی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

۱) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص  پیدائشی گونگا ہو ، پیدائشی گونگا نہ ہونے کی صورت میں اس کے گونگے پن پر کم از کم ایک سال گزر گیا ہو۔

۲)  اس کے اشارے اور اشاروں کا مطلب لوگوں میں معروف (جانا پہچانا) ہو، اور وہ ایسے اشارہ سے طلاق دے جس کا طلاق کے اشارہ کے طور پر استعمال ہونا معروف و مشہور ہو۔

۳) اشارہ کرتے وقت اس کے منہ سے کچھ آواز بھی نکلے جیسا کہ گونگوں کی عادت ہوتی ہے۔

۴) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص لکھنے پر قادر نہ ہو؛ جو گونگا لکھنے پر قادر ہو اس کی طلاق لکھنے سے ہی ہوگی، اشارہ کرنے سے نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ گونگا شخص اشارہ سے طلاق دیتے وقت جتنے عدد کا اشارہ کرے گا اتنی ہی طلاقیں واقع ہوں گی اور اگر اشارہ سے تین سے کم (ایک یا دو) طلاق دے گا تو وہ طلاقِ  رجعی ہی شمار کی جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 241):

"(أو أخرس) ولو طارئاً إن دام للموت، به يفتى، وعليه فتصرفاته موقوفة. واستحسن الكمال اشتراط كتابته (بإشارته) المعهودة؛ فإنها تكون كعبارة الناطق استحساناً.

 (قوله: إن دام للموت) قيد في طارئاً فقط ح. قال في البحر: فعلى هذا إذا طلق من اعتقل لسانه توقف، فإن دام به إلى الموت نفذ، وإن زال بطل. اهـ. قلت: وكذا لو تزوج بالإشارة لايحل له وطؤها؛ لعدم نفاذه قبل الموت، وكذا سائر عقوده، ولايخفى ما في هذا من الحرج (قوله: به يفتى) وقدر التمرتاشي الامتداد بسنة، بحر. وفي التتارخانية عن الينابيع: ويقع طلاق الأخرس بالإشارة، ويريد به الذي ولد وهو أخرس أو طرأ عليه ذلك ودام حتى صارت إشارته مفهومة وإلا لم يعتبر (قوله: واستحسن الكمال إلخ) حيث قال: وقال بعض الشافعية: إن كان يحسن الكتابة لايقع طلاقه بالإشارة؛ لاندفاع الضرورة بما هو أدل على المراد من الإشارة وهو قول حسن، وبه قال بعض مشايخنا اهـ. قلت: بل هذا القول تصريح بما المفهوم من ظاهر الرواية.

ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه: فإن كان الأخرس لايكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز، وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل. اهـ. فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة، فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لاتجوز إشارته، ثم الكلام كما في النهر إنما هو في قصر صحة تصرفاته على الكتابة، وإلا فغيره يقع طلاقه بكتابة كما يأتي آخر الباب، فما بالك به (قوله: بإشارته المعهودة) أي المقرونة بتصويت منه؛ لأن العادة منه ذلك، فكانت الإشارة بياناً لما أجمله الأخرس، بحر عن الفتح. وطلاقه المفهوم بالإشارة إذا كان دون الثلاثة فهو رجعي، كذا في المضمرات ط عن الهندية". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں