بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گزشتہ سالوں کی زکات ادا کرنے کا طریقہ


سوال

کسی شخص نے ساری زندگی زکات نہیں دی،  اب عمر 75 سال ہے،  اب پچھلے سالوں کی زکات کس حساب سے دینا  بنتی ہے؟

جواب

بالغ ہونے کے بعد جس وقت اس شخص کے پاس پہلی مرتبہ بقدرِ نصاب مال  آیا تھا، اس کے ٹھیک ایک سال بعد سے اس پر سالانہ زکات کی ادائیگی واجب تھی،  اب اس کو چاہیے کہ اپنے تمام گزشتہ سالوں کی مالیت کا اندازا  لگائے  اور اس کا ڈھائی فیصد بطورِ زکات دے ، اور اگر وہ شروع سے ہی صاحبِ  نصاب ہے  تو بلوغت کے سال سے زکات کا حساب شروع کرے، اگر غالب گمان یا حسابات سے کچھ اندازا ہوجائے کہ گزشتہ سالوں میں کتنی کتنی زکات واجب تھی تو اسی کے حساب سے ادا کرے۔ اگر کسی طرح بھی اندازا نہ ہوسکے تو موجودہ مالیت کے حساب سے کل قابلِ زکات اموال کا ڈھائی فیصد نکال لے، اس کے بعد اگلے سال کی زکات نکالتے وقت پہلے سال کی زکات کی مقدار (ڈھائی فیصد) کو  بقیہ مال سے منہا کرکے حساب لگائے، پھر اس سے اگلے سال کا حساب کرتے ہوئے گزشتہ دوسالوں کی زکات کی مقدار کو منہا کرکے بقیہ کل مال کا ڈھائی فیصد نکالے، اسی طرح ہرسال کا حساب کرتے ہوئے گزشتہ سالوں کی زکات کی مقدار منہا کرکے زکات دے، اگر چند سال کی زکات کا حساب کرنے کے بعد نصاب سے کم رقم رہ جائے تو پھر زکات واجب نہیں ہوگی۔

تمام سالوں کی جتنی رقم بنے وہ نوٹ کرلے، اگر تمام رقم فوری ادا کرنا ممکن نہ ہو تو تھوڑا تھوڑا کرکے ادا کیا جاسکتا ہے،  اگر یقینی حساب لگانا مشکل ہو تو اندازے سے کچھ زیادہ ادا کرلیا جائے۔  

(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب. أقول: إنه خرج باشتراط الحرية على أن المطلق ينصرف للكامل، ودخل ما ملك بسبب خبيث كمغصوب خلطه إذا كان له غيره منفصل عنه يوفي دينه (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد، ولو كفالة أو مؤجلا، ولو صداق زوجته المؤجل للفراق ونفقة لزمته بقضاء أو رضا، بخلاف دين نذر وكفارة وحج لعدم المطالب، ولا يمنع الدين وجوب عشر وخراج  وكفارة (و) فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كثيابه أو تقديرا كدينه  نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه. [الدر مع الرد : ٢/ ٢٥٩- ٢٦٣] فقط واللہ اعلم

نوٹ: مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

رقم گزشتہ سالوں کی زکاۃ

سونے کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ میں موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا


فتوی نمبر : 144106200369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں