پچھلے سال 13 روزے نہیں رکھے تو اس کا کتنا فدیہ ہو گا؟
تن دُرست آدمی کے لیے رمضان کا روزہ رکھنا ہی فرض ہے، اور روزہ نہ رکھنے کی صورت میں اس روزہ کی قضا رکھنا لازمی ہے، روزے کے بدلے فدیہ ادا کرنا جائز نہیں ہے، اس سے روزہ کا فرض ادا نہیں ہوگا، بلکہ ایسا کرنے سے وہ گناہ گار ہوگا؛ لہٰذا اگر آپ نے کسی عذر کی وجہ سے پچھلے سال 13 روزے نہیں رکھے ہیں تو اب ان روزوں کی قضا رکھنا ہی آپ کے ذمہ لازم ہے، اور اگر بلا عذر روزے چھوڑے تھے تو قضا کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار بھی کرنا چاہیے۔ اگر انتہائی پڑھاپے یا دائمی بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی سرے سے قدرت ہی نہ ہو اور آئندہ زندگی بھر صحت کی بحالی کی امید نہ ہو تو پھر فدیہ ادا کرسکتے ہیں، اس صورت میں ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ادا کرنا ہوگا، لیکن انتقال سے پہلے عذر دور ہونے کی صورت میں فدیہ باطل ہوجائے گا اور روزے کی قضا لازم ہوجائے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي القنية: ولا فدية في الصلاة حالة الحياة بخلاف الصوم. اهـ أقول: ووجه ذلك أن النص إنما ورد في الشيخ الفاني أنه يفطر ويفدي في حياته، حتى إن المريض أو المسافر إذا أفطر يلزمه القضاء إذا أدرك أياما أخر وإلا فلا شيء عليه، فإن أدرك ولم يصم يلزمه الوصية بالفدية عما قدر، هذا ما قالوه، ومقتضاه أن غير الشيخ الفاني ليس له أن يفدي عن صومه في حياته لعدم النص ومثله الصلاة؛ ولعل وجهه أنه مطالب بالقضاء إذا قدر، ولا فدية عليه إلا بتحقيق العجز عنه بالموت فيوصي بها، بخلاف الشيخ الفاني فإنه تحقق عجزه قبل الموت عن أداء الصوم وقضائه فيفدي في حياته، ولايتحقق عجزه عن الصلاة لأنه يصلي بما قدر ولو موميا برأسه، فإن عجز عن ذلك سقطت عنه إذا كثرت، ولا يلزمه قضاؤها إذا قدر كما سيأتي في باب صلاة المريض، وبما قررنا ظهر أن قول الشارح بخلاف الصوم أي فإن له أن يفدي عنه في حياته خاص بالشيخ الفاني، تأمل". (2/74، باب قضا ء الفوائت، ط؛ سعید)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200809
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن