بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا یزید جنتی ہے؟


سوال

مولانا صاحب تقریر فرمارہے تھے تواس میں انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے قسطنطنیہ کی جنگ لڑی وہ لشکر جنتی ہو گا. اور انہوں نے کہاکہ اس لشکر میں یزید بھی تھا۔ کیا یہ صحیح ہے؟ کیا پھر یزید جنتی ہوا؟

جواب

سوال میں مذکور حدیث دیگر کئی محدثین کے ساتھ ساتھ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کی ہے: عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ: أنَّ عُمَیْرَ بْنَ الأسْوَدِ الْعَنَسِيّ حَدّثَہ: أنَّه أتَیٰ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ وَهوَ نَازِلٌ فِیْ سَاحَةِحمص وَهوَ فِیْ بِنَاءٍ لَه وَمَعَه أمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَیْر:ٌ فَحَدَّثَنَا أمُّ حَرَامٍ أنَّها سَمِعَتِ النَّبِيَّ -صَلی اللّٰه علیه وسلَّم- یَقُوْلُ: أوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أمَّتِيْ یَغْزُوْنَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوْا قَالَتْ أمُّ حَرَامٍ: قُلْتُ: یَا رَسولَ اللّٰه ! أنَا فيهم؟ قَالَ: أنْتِ فِیْهم. ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ :أوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أمَّتِيْ یَغْزُوْنَ مَدِیْنَةَ قَیْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَّهم.فَقُلْتُ : أَنَا فِیْهمْ یَا رَسُوْلَ الله؟ قَالَ: لاَ․ ( کتاب الجهاد، باب ما قیل فی قتال الروم، ص: 409،410 جلد اول) اسی روایت کی بنیاد پر یزید کے جنتی ہونے کی بات کی جاتی ہے، روایت کے متعلق درج ذیل نکات پیش نظر رہیں تو اس استدلال کی حقیقت واضح ہوجائے گی:

1- اس روایت میں پہلے دریا ئی غزوے میں شریک لشکر کے لیے أوْجَبُوْاکا لفظ وارد ہوا ہے، جس کا مطلب اکثر محدثین نے أوْجَبُوْا الْجَنَّةَ(ان کے لیے  جنت واجب ہوگئی) جب کہ بعض نے أوْجَبُوا الْمَحَبَّةَ(ان کے لیے محبت واجب ہو گئی کما فی عمدة القاری) کیا ہے، محقق قول کے مطابق اس غزوے میں یزید شریک نہیں تھا، لہذا ان الفاظ سے استدلال تو قطعاً درست نہ ہوگا.

2- حدیث میں مدینہ قیصر پر حملہ میں پہل کرنے والے لشکر کے لیے مَغْفُوْرٌ لَّهمْکے الفاظ ہیں، یعنی ان کے گناہ معاف کردیے جائیں گے، اور اسی جنگ میں شرکت کی بنا پر مذکورہ الفاظ سے دلیل لے کر یزید کو جنتی کہا جاتا ہے.

3- اس پہلو پر حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا کلام کافی وشافی ہے ، جس کا حاصل یہ ہے: بعض لوگ اس حدیث سے استدلال کرکے یزید کی نجات کے قائل ہیں، اس لیے  کہ دوسرے لشکر میں یزید بھی شریک تھا، بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی امیرِ لشکر تھا، درست یہ ہے کہ حدیث سے محض اس کے پچھلے گناہوں کی معافی ثابت ہوتی ہے۔، کیوں کہ جہاد ان اعمال میں سے ہے جو سابقہ گناہوں کی معافی کا باعث ہوتے ہیں، البتہ آئندہ گناہوں کی معافی ان سے نہیں ہوتی، اس لیے  یزید کے بعد کے اعمالِ قبیحہ کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے ، اور اس حدیث کی بنا پر اس کی نجات کا اعتقاد درست نہیں. ( تراجمِ ابوابِ بخاری: ص۳۱، باب ما قیل فی قتال الروم ، صحیح بخاری، جلد اول، قدیمی ) یہاں بوجوہ اختصار کے ساتھ راجح تحقیق ذکر تحقیق کی گئی ہے، مزید تفصیل کے لیے مولانا عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ کی کتاب "یزید کی شخصیت" ملاحظہ فرمائیں.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143601200023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں