بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کسی شخص کے وطن اصلی دو ہو سکتے ہیں؟


سوال

میں پچھلے بیس سال سے پشاور میں رہتا ہوں اپنا گھر ہے،  جب کہ کرک میں اپنا گھر اور جائیداد ہے جہاں میں کبھی کبھار جایا کرتا ہوں، سوال یہ ہے کہ اگر میں کرک اپنے گھر یا بھائی کے گھر دو تین دن قیام کروں تو مجھے سفر کی نماز پڑھنی ہوگی یا پوری نماز?

جواب

واضح رہے کہ جو وطن انسان کا وطنِ اصلی ہو وہ  محض دوسری جگہ رہائش اختیار کرنے سے باطل نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی کے علاوہ کسی اور علاقے کو وطن بنالیتاہے اور پہلے وطن سے اہل وعیال اور جائیداد وغیرہ ختم نہیں کرتا تو  ایسے شخص کے لیے دونوں وطن ہی اس کے وطنِ اصلی کہلائیں گے اور ایسا آدمی دونوں جگہ نماز مکمل پڑھے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ آپ نے اب تک کرک سے اپنا گھر ختم نہیں کیا ہے ؛ اس لیے کرک بھی  آپ کا وطنِ اصلی  شمار ہو گا اور جب بھی آپ وہاں جائیں گے تو اگرچہ پندرہ دن سے کم  مدت کے لیے جائیں وہاں مکمل نماز پڑھیں گے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 132):
"(قوله: والأصل أن الشيء يبطل بمثله) كما يبطل الوطن الأصلي بالوطن الأصلي، و وطن الإقامة بوطن الإقامة، و وطن السكنى بوطن السكنى". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200979

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں