بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کام کی شدت کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑنا جائز ہے؟


سوال

رمضان میں روزے رکھنا مشکل ہو، مثلاً کام سخت ہو، بار بار  پیاس لگتی ہو ، ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنے کی کیا اجازت ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی عذر (بیماری یا سفر) کے بغیر رمضان کا  روزے  ترک کرنا حرام اور سخت گناہ ہے اور ایسا شخص گناہِ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق ہے، حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من أفطر يوماً من رمضان من غير رخصة و لا مرض لم يقض عنه صوم الدهر كلّه و إن صامه". (مشکاة المصابیح،١/ ١٧٧، ط: قديمی)

ترجمہ: جس آدمی نے عذر اور بیماری کے بغیر رمضان کا ایک روزہ چھوڑھ دیا تو عمر بھر روزہ رکھنے سے ایک روزے کی تلافی نہیں ہوگی، اگر چہ قضا کے طور پر عمر بھر روزے بھی رکھ لے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شدید مرض لاحق نہ ہو  تو  ایسی صورت میں محض کام کی سختی  اور  پیاس کی وجہ سے رمضان میں روزے  چھوڑنا  جائز نہیں، اگر ممکن ہو تو رمضان المبارک میں کام موقوف کرے، یا رات میں کام کی ترتیب بنانے کی کوشش کرے، یا مالکان سے درخواست کرے کہ وہ کام میں تخفیف کریں، مالی تنگی یا اختیار نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ کوئی صورت ممکن نہ ہو تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے روزہ رکھ کر کام کرے، خدانخواستہ اس وقت کوئی سخت حالت پیش آئے تو اس وقت کسی مفتی سے رجوع کرکے مسئلہ معلوم کرلے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں