بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا چمچے سے چاول کھانا خلاف سنت ہے؟


سوال

چاول چمچے سے کھانا خلافِ سنت ہے؟ ہم نے ہمیشہ یہی سنا ہے کہ چاول بھی ہاتھ سے کھائے جائیں،  لیکن اب کچھ لوگوں سے یہ سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے  زمانے میں چاول نہیں کھائے جاتے تھے. اور چاول ایسی چیز ہے کہ چمچے سے زیادہ نفاست سے کھائے جا سکتے ہیں؛  لہذا چاول چمچے سے کھانا خلافِ سنت نہیں ہے. کیا یہ بات درست ہے؟

جواب

کھانا  کھانے کے  آداب میں سے ہے کہ انسان بغیر کسی واسطہ کے اپنے داہنے ہاتھ سے کھائے،  یہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ عادیہ ہے، البتہ چمچ سے کھانا بھی جائز ہے، شرعاً اس کی ممانعت نہیں، البتہ طبی لحاظ سے چمچہ کے بغیر اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے کے ہضم ہونے کے لیے زیادہ مفید ہے،  نیز چمچہ سے کھانے کو ناجائز قرار دینا یا خلافِ سنت قرار دینا بھی درست نہیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں  چاول بھی غذائی اجناس میں شامل تھا۔ 

 اگر کسی جگہ براہِ راست ہاتھ سے کھانے کو معیوب سمجھا جائے  یا چمچے / کانٹے وغیرہ سے کھانے کو بڑائی اور تکبر کی وجہ سے اختیار کیا جائے تو ایسی جگہ براہِ راست ہاتھ سے کھانا بہتر ہے۔ لیکن ایسی بات نہ ہو تو چمچے سے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ اور اگر غذا ایسی ہے کہ چمچے کے بغیر (یعنی براہِ راست ہاتھ سے) کھانے میں حرج و تکلیف ہو تو براہِ راست ہاتھ سے کھانے کے تکلف کی ضرورت نہیں ہے، ایسے موقع پر چمچے سے کھالینا چاہیے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"حدثنا محمد بن العلاء حدثنا أبو أسامة حدثنا عمر بن حمزة أخبرنا سالم بن عبد الله عن أبيه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من استطاع منكم أن يكون مثل صاحب فرق الأرز، فليكن مثله. قالوا: ومن صاحب فرق الأرز يا رسول الله؟  فذكر حديث الغار حين سقط عليهم الجبل، فقال كل واحد منهم: اذكروا أحسن عملكم، قال: وقال الثالث: اللهم إنك تعلم أني استأجرت أجيراً بفرق أرز، فلما أمسيت عرضت عليه حقه فأبى أن يأخذه وذهب، فثمرته له حتى جمعت له بقراً ورعاءها، فلقيني فقال: أعطني حقي، فقلت: اذهب إلى تلك البقر ورعائها فخذها، فذهب فاستاقها". ( سنن ابي داؤد، باب في الرجل يتجر في مال الرجل بغير إذنه، رقم الحديث، ٣٣٨٧)

عون المعبودمیں ہے:

"(مثل صاحب فرق الأرز ) : بفتح الفاء والراء بعدها قاف وقد تسكن الراء . قال في القاموس : مكيال بالمدينة يسع ثلاثة آصع أو يسع ستة عشر رطلاً، والأرز فيه ست لغات : فتح الألف وضمها مع ضم الراء وتضم الألف مع سكون الراء وتخفيف الزاي وتشديدها ، والرواية هنا بفتح الهمزة وضم الراء وتشديد الزاي قاله القسطلاني .  وقال في القاموس : الأرز حب معروف وقال في الصراح: أرز برنج ( فذكر حديث الغار ) : لم يذكره أبو داود بطوله ، وذكره البخاري مطولاً في ذكر بني إسرائيل والمزارعة والبيوع وغيرها، وذكره مسلم في التوبة ( فثمرته ) : من التثمير أي كثرت الأرز وزدته بالزراعة ( له ) : أي للأجير ( ورعاءها ) : جمع راع واستدل أبو داود بهذا الحديث على جواز تجارة الرجل في مال الرجل بغير إذنه ، وقد تقدم اختلاف العلماء في هذه المسألة في الباب المتقدم ، وترجم البخاري في صحيحه : باب إذا اشترى شيئا لغيره بغير إذنه فرضي ثم ذكر هذا الحديث". ( ٩ / ١٩٠) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200620

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں