بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ٹوپی پہننا بدعت ہے؟


سوال

ایک طبقہ ٹوپی پہننے اور سر ڈھانپنے کو بدعت سمجھتا ہے، اور کہتا ہے کہ ثابت نہیں، مسئلہ کی حقیقت بتادیں۔

جواب

واضح رہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمامہ اور اس کے نیچے ٹوپی پہننا ثابت ہے، اسی طرح سے صحابہ و تابعین سے بھی ٹوپی پہنا ثابت ہے، لہذا ٹوپی پہننے کو بدعت قرار دینا درست نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمومی اَحوال میں عمامہ یا ٹوپی کے ذریعہ سر مبارک کو ڈھانپا کرتے تھے؛ اس لیے سر پر عمامہ یا ٹوپی پہنناسننِ زوائد میں سے ہے جس کا درجہ مستحب کا ہے۔ اور سر کاڈھانپنالباس کا حصہ ہے، صحابہ کرام علیہم الرضوان اور صلحائے امت کا بھی یہی معمول تھا۔بعض صحابہ کرام کا ٹوپی یا عمامہ نہ پہننا احادیث میں مذکور ہے، وہ   تنگ دستی کے زمانے کی بات ہے، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ 

 

جامع الترمذيمیں ہے:

"١٦٤٤ - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي يَزِيدَ الخَوْلَانِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الشُّهَدَاءُ أَرْبَعَةٌ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الإِيمَانِ، لَقِيَ العَدُوَّ، فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ الَّذِي يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ أَعْيُنَهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ هَكَذَا، " وَرَفَعَ رَأْسَهُ حَتَّى وَقَعَتْ قَلَنْسُوَتُهُ، قَالَ: فَمَا أَدْرِي أَقَلَنْسُوَةَ عُمَرَ أَرَادَ أَمْ قَلَنْسُوَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟... الحديث ( بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ، ٤ / ١٧٧)

ترجمہ: حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: شہداء چار ہیں: ایک وہ مؤمن بندہ جس کا ایمان عمدہ ہو، دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت اللہ سے کیا ہوا وعدہ سچا کردکھائے یہاں تک کہ قتل کردیا جائے، یہ وہ شہید ہے کہ قیامت کے دن لوگ اس کی طرف اپنی نگاہیں اٹھائیں گے اس طرح، چناں چہ آپ نے اپنا سر اٹھایا (اور سر اٹھاکر اوپر دیکھا) یہاں تک کہ آپ کی ٹوپی گرگئی۔ راوی کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ حضرت فضالہ کی مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ٹوپی ہے یا رسول اللہ ﷺ کی ٹوپی۔

مصنف ابن ابي شيبةمیں ہے:

"٢٤٨٥٥ - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ قَلَنْسُوَةً بَيْضَاءَ مِصْرِيَّةً»

٢٤٨٥٦ - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةُ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ قَلَنْسُوَةً لَهَا رُبٌّ، كَانَ يَسْتَظِلُّ بِهَا إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ»

٢٤٨٥٧ - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَزِيدَ، قَالَ: «رَأَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ قَلَنْسُوَةً مَكْفُوفَةً بِثَعَالِبَ، أَوْ سُمُورٍ»

 ٢٤٨٥٨ - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْأَجْلَحِ، قَالَ: «رَأَيْتُ عَلَى الضَّحَّاكِ قَلَنْسُوَةَ ثَعَالِبَ»

 ٢٤٨٥٩ - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ أَبِيهِ: «أَنَّ أَبَا مُوسَى خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ، وَعَلَيْهِ قَلَنْسُوَةٌ، فَمَسَحَ عَلَيْهَا»

٢٤٨٨٥ - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ السَّائِبِ الطَّائِفِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ أَبِي هَنْدَبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «رَأَيْتُ عَلَى عُمَرَ بُرْنُسَ فُطْرُسَ» ( ٥ / ١٦٩ - ١٧٠ - ١٧٢) 

زاد المعاد في هدي خير العباد (1/ 130):
"فصل في ملابسه صلى الله عليه وسلم
كانت له عمامة تسمى: السحاب كساها علياً، وكان يلبسها ويلبس تحتها القلنسوة. وكان يلبس القلنسوة بغير عمامة، ويلبس العمامة بغير قلنسوة".

شعب الایمان میں ہے:

"عن ابن عمررضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلبس قلنسوة بيضاء". (8/293)

اخلاق النبی للاصبھانی میں ہے:

"عن ابن عباس، قال : كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث قلانس: قلنسوة بيضاء مضربة، وقلنسوة برد حبرة، وقلنسوة ذات آذان، يلبسها في السفر، وربما وضعها بين يديه إذا صلى". (1/125 القاهرة ) فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144008201377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں