بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نماز میں بلند آواز سے آمین کہنا جائز ہے؟


سوال

کیا نماز میں زور سے آمین کہنا جائز ہے؟

جواب

نماز میں سورہٴ فاتحہ کے بعد آمین کہنا بالاتفاق مسنون ہے،علماء کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ سری اور انفرادی نمازوں میں آمین آہستہ کہی جائے گی،  جہری نمازوں میں اختلاف ہے،حنفیہ کے نزدیک جہری نمازوں میں بھی آمین آہستہ کہنا افضل ہے، جس کی تائید متعدد نصوصِ شرعیہ سے ہوتی ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے :

لفظِ”آمین“ایک دعا ہے، جس کے معنیٰ ہیں :اے اللہ! تو قبول فرما، بخاری شریف میں امام بخاری رحمہ اللہ حضرت عطاء کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:"الآمين دعاء" ،آمین ایک دعا ہے۔ (بخاری :۱/۱۰۷، باب جهر الامام بالتأمین)

مجمع البحارمیں ہے:"معناه: استجب لي". (۱/۱۰۵)

اور آیتِ قرآنیہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دعا مانگنے میں اصل اور افضل آہستہ مانگناہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {ادعوا ربکم تضرعاً وخفیةً} (اعراف:/۵۵)، ترجمہ:پکارو اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے. حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی آہستہ دعا مانگی تھی، {إذنادي ربه نداءً خفیا}(مریم:۳)ترجمہ:  جب پکارا اس نے اپنے رب کو چھپی آواز سے؛ پس جب آمین دعا ہے اور دعا میں افضل پوشیدگی ہے تو آمین کو بھی آہستہ کہنا افضل اور بہتر ہوگا ۔

ذیل میں وہ احادیث وآثار نقل کیے جاتے ہیں، جن سے آمین پست آواز میں کہنا ثابت ہوتا ہے:

(۱) "عن أبي هریرة أن رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلّم قال:إذا قال الإمام: غیر المغضوب علیهم ولا الضّالین، فقولوا:آمین". (البخاري:۱/۱۰۸،جهرالمأموم بالتأمین، الرقم:۱۵۶) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب امام {غیر المغضوب علیهم ولا الضالین} کہے تو تم آمین کہو۔ اس حدیث میں مقتدی کے آمین کہنے کو امام کے {ولاالضالین}  کہنے پر معلق کیاہے، نہ کہ امام کے آمین کہنے پر، اس سے امام کا ”آمین“آہستہ کہنا معلوم ہوتا ہے، جسے مقتدی نہیں سن سکیں گے، البتہ {ولا الضالین} کو جہرکی وجہ سے سب مقتدی سن لیں گے؛اسی وجہ سے امام کے {ولاالضالین}  کہنے پر مقتدیوں کو ’’آمین‘‘ کہنے کا حکم ہوا. (اوجز:۱/۲۵۲)

اس بات کی تائید نسائی کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے، جس کو علامہ نیموی نے صحیح قرار دیا ہے ، جس میں ”وإن الإمام یقول: آمین“ کا اضافہ ہے، اس سے امام کے آہستہ آمین کہنے کا پتہ چلتا ہے؛کیوں کہ امام اگر جہراً کہتا تومقتدیوں کو خودہی پتہ چل جاتا اس جملے کے کہنے کی حاجت ہی نہ تھی ۔

(۲) "عن علقمة بن وائل، عن أبیه، أنّ النّبي صلّی اللّٰه علیه وسلّم قرأ {غیر المغضوب علیهم ولا الضالین}، فقال:اٰمین وخفض بها صوته". (الترمذي :۱/۳۴، باب ما جاء في التأمین، الرقم:۲۴۸)

ترجمہ:وائل بن حجر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کا عمل )نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے {غیر المغضوب علیهم ولا الضالین} پڑھا توآمین آہستہ آواز سے کہی۔

(۳) "عن أبي هریرة أن رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلّم قال:إذا قال الإمام {ولا الضالین}، فقولوا:آمین، فان الإمام یقولها". (رواه أحمد والنّسائي والدّارمي وإسناده صحیح. (أوجزالمسالک:۱/۲۵۲، التامین خلف الإمام)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب امام {ولاالضالین} کہے توتم آمین کہو،کیوں کہ امام بھی اسے کہتا ہے ،اس حدیث کوامام احمد ،نسائی،دارمی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے ۔ ”فإن الإمام یقولها“سے پتا چلتا ہے کہ امام ’’آمین‘‘ آہستہ کہے گا، ورنہ اس جملے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی.

4- امیر المومنین حضرت عمر فاروق اورعلی رضی اللہ عنہما آہستہ ’’آمین‘‘ کہتے تھے، جیساکہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے شرح معانی الآثار میں ان حضرات کا عمل نقل فرمایا ہے:

"عن أبي وائل قال: لم یکن عمر وعلي یجهران ببسم اللّٰه الرّحمٰن الرّحیم ولا التعوذ ولا آمین".  (الطحاوي:۱/۹۹) ترجمہ: حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما تسمیہ تعوذ اور آمین بالجہر نہیں کہتے تھے ۔

5- حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود بھی آہستہ آمین کہتے تھے:

"عن أبي وائل قال:کان علي وعبد اللّٰه لایجهران ... بالتامین". (المعجم الکبیر: رقم: ۹۲۰۷، مکتبة العلوم والحکم)

مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ اور آثارِِ صحابہ سے معلوم ہوا کہ نماز میں آہستہ ’’آمین‘‘  کہی جائے گی۔

جہر کے سلسلے کی جو روایات وارد ہوئی ہیں، ان میں سب سے قوی روایت حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی ہے جس میں ’’آمین بالجہر‘‘  کی صراحت ہے :(جب کہ یہ روایت بھی اپنے مستدل پر تام نہیں) ’’وقرأ {غیر المغضوب علیهم ولا الضالین}، فقال: آمین ومد بها صوتَه‘‘. (ترمذی:۲۴۸) ترجمہ:آپ نے {غیر المغضوب علیهم ولا الضالین} پڑھ کر آواز تیز کرتے ہوئے ’’آمین‘‘ کہی ، اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ :اس میں ’’آمین‘‘ جہراً کہنا تعلیماً ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مستقل عمل نہیں ؛چنانچہ بعض روایتوں میں اس کی صراحت بھی ملتی ہے : ’’ما أراه إلایعلمنا‘‘ میرا گمان یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو تعلیم دے رہے تھے۔ (اعلاء السنن :۲/۱۸۲)، تعلیم پر محمول کرنے کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صحابہ کرام روزانہ پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے تھے ،اگر ’’آمین بالجہر‘‘  کا عام معمول ہوتا تو اس کو بیان کرنے والی ایک کثیر تعداد موجود ہوتی ، مگر صورتِ حال یہ ہے کہ صحیحین کی کسی روایت میں ’’آمین بالجہر‘‘  کا صریح تذکرہ موجود نہیں، صحیحین کے علاوہ جن احادیث میں ’’آمین بالجہر‘‘  کا تذکرہ ہے، ان میں سے ایک حدیث حضرت وائل بن حجر کی ہے جس کے بارے میں ابھی معلوم ہوا کہ ’’آمین‘‘ جہراً کہنا تعلیماً تھا ،نیز اضطراب کی وجہ سے حضرت وائل کی حدیث ضعیف ہے ،تفصیل اعلاء السنن: ۲/۲۲۳میں مذکور ہے.

اس کے علاوہ جو دیگر روایات ہیں، وہ بھی ضعف اور علت سے خالی نہیں۔ مذکورہ بالا احادیثِ نبویہ اور آثارِ  صحابہ سے ’’آمین‘‘  پست آواز میں کہنے کے حوالہ سے احناف کا مسلک قوی دلائل سے ثابت اور مبرہن ہے، اور یہی مالکیہ کا مسلک بھی ہے. البتہ شوافع و حنابلہ کے نزدیک ’’آمین‘‘  بلند آواز سے کہنا اولی ہے.  تاہم یہ اختلاف افضل ہونے نہ ہونے کے حوالہ سے ہے، اس کا تعلق جواز و عدمِ جواز سے نہیں، پس اگر کسی نے جہراً ’’آمین‘‘  کہہ دیا تو احناف و مالکیہ کے نزدیک بھی اس کی نماز ادا ہو جائے گی، تاہم ایسا کرنا خلافِ اولی ہوگا۔ صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کی زیادہ تعداد ’’آمین‘‘  آہستہ کہتی تھی، امام طبری فرماتے ہیں:”إن أکثر الصّحابة والتّابعین -رضي اللّٰه عنهم-کانوا یخفون بها.“(اعلاء السنن: ۲/۲۲۳)، البتہ صغارِ صحابہ کے زمانے میں خاص طور سے حضرت عبد اللہ بن زبیر نے جہراً ’’آمین‘‘  کہنے کا رواج ڈالا، اُن کا دارالسلطنت مکہ تھا؛ اس لیے مکہ مکرمہ میں جہراً ’’آمین‘‘  کہنا رائج تھا؛ اسی وجہ سے امام شافعی رحمہ اللہ نے - جن کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی - ’’آمین بالجہر‘‘  کو اختیار کیا؛مگر مدینہ منورہ کی صورتِ حال دوسری تھی، چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ نے -جن کے یہاں تعاملِ مدینہ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے - سراً ’’آمین‘‘  کہنے کو اختیار فرمایا۔ (ادلہٴ کاملہ: ۴۳)

بہرحال موجودہ زمانہ میں بعض لوگ جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ احناف ’’آمین‘‘  کے سلسلے میں احادیث کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، ان کا یہ قول سراسر غلط اور ذخیرہٴ احادیث سے نا واقفیت پر مبنی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200414

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں