بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قیلولہ سنت ہے؟ اور قیلولہ کا وقت کیا ہے؟


سوال

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی معمول تھا کہ آپ ﷺ طلوعِ  آفتاب سے ظہر تک کے کسی وقت میں آرام فرماتے تھے؟

جواب

’’قیلولہ‘‘  دوپہر کے وقت زوال سے پہلے یا زوال کے بعد سونے  کا نام ہے، ابنِ اثیر فرماتے ہیں کہ : ’’قیلولہ‘‘  نصف النہار کے  وقت آرام کرنے کا نام ہے، اگر چہ نیند نہ کی جائے۔

رسول اللہ ﷺ کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول ظہر کی نماز سے پہلے کھانے اور قیلولہ کا تھا، البتہ جمعے کے دن نماز کے بعد کھانے اور سونے کا معمول تھا۔ چناں چہ صحیح بخاری میں حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں: ہم  نبی کریم ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے اور پھر قیلولہ ہوتا تھا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس روایت میں اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی روز  کی عادت تھی۔

موصوف فتح الباری میں مزید لکھتے ہیں: سنن ابنِ ماجہ اور صحیح ابنِ خزیمہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دن کے روزے کے لیے سحری اور رات کے قیام (تہجد) کے لیے قیلولہ سے مدد حاصل کرو۔ اس روایت میں زمعہ بن صالح ہیں، جو کہ ضعیف ہیں، حضرت انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : قیلولہ کیا کرو؛  کیوں کہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے۔  اس روایت کی سند میں کثیر بن مروان ہیں، جو کہ متروک ہیں۔  خوات بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دن کے پہلے حصے کی نیند آگ سے جلنا ہے،  دن کے درمیانی حصے کی نیند اچھی عادت ہے اور آخری حصے کی نیند حماقت ہے۔

حضرت  ڈاکٹر محمد عبد الحی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر فرصت میسر ہو تو اتباعِ سنت کی نیت سے دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ دیر لیٹ جائے، اس کو ’’قیلولہ‘‘  کہتے ہیں، اس مسنون عمل کے لیے سونا ضروری نہیں، صرف لیٹ جانا ہی کافی ہے‘‘۔ (اسوہ رسول اکرم ص: 361 ط: مکتبہ عمر فاروق)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (33 / 15):

"والقائلة هي القيلولة وهي النوم بعد الظهيرة، وقال ابن الأثير: المقيل والقيلولة الاستراحة نصف النهار وإن لم يكن معها نوم، يقال: قال يقيل قيلولة فهو قائل".

فتح الباري - ابن حجر - (11 / 69):

"( قوله: باب القائلة بعد الجمعة )  أي بعد صلاة الجمعة وهي النوم في وسط النهار عند الزوال وما قاربه من قبل أو بعد، قيل لها: "قائلة"؛ لأنها يحصل فيها ذلك وهي فاعلة بمعنى مفعولة مثل عيشة راضية، ويقال لها أيضاً: "القيلولة"، وأخرج بن ماجة وبن خزيمة من حديث بن عباس رفعه: استعينوا على صيام النهار بالسحور، وعلى قيام الليل بالقيلولة. وفي سنده زمعة بن صالح وفيه ضعف، وقد تقدم شرح حديث سهل المذكور في الباب في أواخر كتاب الجمعة، وفيه إشارة إلى أنها كانت عادتهم ذلك في كل يوم، و ورود الأمر بها في الحديث الذي أخرجه الطبراني في الأوسط من حديث أنس رفعه، قال: قيلوا فإن الشياطين لاتقيل. وفي سنده كثير بن مروان وهو متروك. وأخرج سفيان بن عيينة في جامعه من حديث خوات بن جبير رضي الله عنه موقوفاً، قال: نوم أول النهار حرق، وأوسطه خلق، وآخره حمق. وسنده صحيح ".

فتح الباري - ابن حجر - (2 / 388):

"والمعنى أنهم كانوا يبدؤن بالصلاة قبل القيلولة بخلاف ما جرت به عادتهم في صلاة الظهر في الحر؛ فإنهم كانوا يقيلون ثم يصلون لمشروعية الإبراد".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (10 / 212):

"عن ( سهل ) قال: كنا نصلي مع النبي الجمعة ثم تكون القائلة". فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں