بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا فرض شروع ہونے کے بعد فجر کی سنتیں پڑھی جائیں؟


سوال

 فجر کی سنتوں کے بارے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ جب کوئی شخص مسجد آئے اور دیکھے کہ فجر کی جماعت کھڑی ہے اور امام کی آواز سنائی دیتی ہے تو ایسی حالت میں سنتیں پڑھنا کیسا ہے؟  مسجد کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں ہوتا جہاں پر امام کی آواز نہ سنائی دے۔

دوسرا اگر فجر کی سنتیں رہ جائے اور احناف کے مذہب کے مطابق طلوعِ آفتاب کا انتظار کریں تو عام لوگ سرے سے سنتیں پڑھتے ہی نہیں، جیسا کہ عام مشاہدہ ہے، حال آں کہ فجر کی سنتوں کے بارے میں تاکید بہت زیادہ ہے۔ لہذا اگر شوافع کے مسلک پر عمل کرے اور جماعت کی نماز کے فوراً بعد سنتیں پڑھے  تو دونوں مسائل آسانی سے حل ہو جاتے ہیں؟  ایک یہ حدیث کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو فرض ہی پڑھنی چاہیے اور دوسرا فجر کی سنتیں ادا ہو جائیں گے۔ برائے مہربانی اس مسئلے کو ایسے انداز میں سمجھا ئیں کہ میں بطور امام عوام کو سمجھا سکو ں!

جواب

فجر کے  علاوہ دوسری کوئی بھی فرض نماز شروع ہوچکی ہو تو سنت شروع کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ آں حضرت ﷺ کا  ارشاد  ہے:جب جماعت شروع ہوجائے تو سوائے اس نماز کے کوئی اور نماز نہ پڑھی جائے۔  ہاں اگر سنتیں شروع کردی ہوں، پھر فرض نماز شروع ہوجائے تو دو  رکعت مکمل کرکے سلا م پھیردے، اور اگر چار رکعت والی سنت پڑھ رہا ہو  اور تیسری رکعت شروع کردی تو جلدی سے چار مکمل کرکے جماعت میں شامل ہوجائے۔

"عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة»". (صحيح مسلم ۔1/ 493)
 البتہ فجر کی سنتوں کی چوں کہ  خصوصی تاکید آئی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد  فرمایا ہے: ’’فجر کی سنت دو گانہ کو نہ چھوڑو ، اگرچہ  گھوڑے تمہیں روند ڈالیں‘‘۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ  ’’فجر کی دو رکعت دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہے‘‘۔

 اسی لیے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ انہوں نے فجر کی نماز قائم ہونے کے بعد بھی سنتِ فجر کو ادا فرمایا ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے جماعتِ فجر شروع ہونے کے بعد یہ دو رکعتیں ادا کی ہیں ،حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جماعت شروع ہونے کے بعد سنتِ فجر ادا کرنا ثابت ہے۔  حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہم سے بھی اسی طرح ثابت ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ارشادات اور ان کا عمل در اصل سنتِ رسول کی تشریح و توضیح کا درجہ رکھتے ہیں؛ کیوں کہ صحابہ کے بارے میں یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ وہ سنتِ رسول کی خلاف ورزی کریں، اسی پس منظر میں ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہ  اور امام مالک رحمہما اللہ کے نزدیک فجر  کی جماعت کھڑی ہونے کے بعد بھی یہ فجر کی دو سنتیں ادا کی جائیں گی ۔

حنفیہ کے مسلک کی تفصیل یہ ہے کہ اگر فجر کی سنتوں کی ادائیگی کے بعد امام کے ساتھ فرض نماز کا قعدہ اخیرہ مل سکتا ہے تو  بھی سنت نہ چھوڑے۔ اگر اس کی بھی  امید نہ ہو تو پھر سنت اس وقت نہ پڑھے .

رہا فجر کی فرض نماز کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے سنتیں ادا کرنے کا حکم!  تو حنفیہ کے نزدیک اس کی اجازت نہیں ہے، اس لیے کہ صحیح احادیث میں فجر کے بعد طلوع سے پہلے نماز کی ممانعت منقول ہے۔ چناں چہ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک (نفل) نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ (کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الصلاۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس، 1/82۔ ط: قدیمی) اور صحیح مسلم میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز کے بعد غروب ہونے تک نماز (نفل) پڑھنے سے منع فرمایا۔ اور صبح کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک نماز (نفل) سے منع فرمایا۔ (کتاب الصلاۃ، باب الاوقات التی نہی عن الصلاۃ فیہا، 1/275۔ ط: قدیمی)

جب فجر کی نماز کے بعد کا وقت نفل اور سنت نماز کے لیے ممنوع ہے تو اس میں لوگوں کو سنتیں پڑھنے کا کیسے کہا جاسکتاہے؟ اگر لوگ سستی کی وجہ سے نہیں پڑھتے تو انہیں نرمی اور اخلاص سے مسئلہ بتادیجیے، دلوں میں بات اللہ تعالیٰ ڈالتے ہیں، آپ خود شرح صدر اور اخلاص سے شرعی مسئلہ بتائیں گے تو ان شاء اللہ لوگ ضرور عمل کریں گے۔ بہر حال جب ایک مسئلے کا حل سنت کی روشنی میں اپنے مسلک میں موجود ہو تو اسی پر عمل کیا جائے گا ،لوگوں کی سستی کو بنیاد بنا کر مذہبِ غیر پر عمل کرنا جائز نہیں۔

شرح مشكل الآثار (10/ 320،321):
" عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها".

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لاتتركوا ركعتي الفجر وإن طردتكم الخيل".
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 444):

"4021 - عن أبي إسحاق، عن عبد الله بن أبي موسى قال: «جاءنا ابن مسعود والإمام يصلي الفجر، فصلى ركعتين إلى سارية، ولم يكن صلى ركعتي الفجر». عبد الرزاق.

4022 - عن معمر، عن أبي إسحاق، عن عبد الله بن أبي موسى، عن ابن مسعود مثله، عبد الرزاق.

4023 - عن معمر قال: وكان الحسن يفعله ، عبد الرزاق.

4024 - عن الثوري، عن الأعمش، عن أبي الضحى، وعاصم، عن الشعبي: «أن مسروقاً كان يصليهما والإمام قائم يصلي في المسجد»".

شرح مشكل الآثار (10/ 322):
"عن أبي عبد الله، قال: حدثنا أبو الدرداء، قال: " إني لأجيء إلى القوم وهم في الصلاة صلاة الفجر، فأصلي ركعتين، ثم أضطم إلى الصفوف". وذلك عندنا -والله أعلم- على ضرورة دعته إلى ذلك، لا على اختيار منه له، ولا على قصد قصد إليه، وهو يقدر على ضده، وهكذا ينبغي أن يمتثل في ركعتي الفجر في المكان الذي يصليان فيه، ولايتجاوز فيهما ما قدرويناه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم مما صححنا عليه هذه الآثار".

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 445):
"عن هشام بن حسان، عن الحسن قال: «إذا دخلت المسجد والإمام في الصلاة، ولم تكن ركعت ركعتي الفجر، فصلهما ثم ادخل مع الإمام». قال هشام: «وكان ابن عمر، والنخعي يدخلان مع الإمام ولايركعان حينئذٍ»".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 377):
"(وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي إقامة إمام مذهبه؛ لحديث: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة». (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلاً.

(قوله: إلا سنة فجر)؛ لما روى الطحاوي وغيره عن ابن مسعود: أنه دخل المسجد وأقيمت الصلاة فصلى ركعتي الفجر في المسجد إلى أسطوانة، وذلك بمحضر حذيفة وأبي موسى، ومثله عن عمر وأبي الدرداء وابن عباس وابن عمر، كما أسنده الحافظ الطحاوي في شرح الآثار، ومثله عن الحسن ومسروق والشعبي، شرح المنية.
(قوله: ولو بإدراك تشهدها) مشى في هذا على ما اعتمده المصنف والشرنبلالي تبعاً للبحر، لكن ضعفه في النهر، واختار ظاهر المذهب من أنه لايصلي السنة إلا إذا علم أنه يدرك ركعةً، وسيأتي في باب إدراك الفريضة، ح. قلت: وسنذكر هناك تقوية ما اعتمده المصنف عن ابن الهمام وغيره".
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 437):
"عن ابن جريج، عن عطاء قال: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة، فإن خرج الإمام وأنت راكع، فاركع إليها ركعةً أخرى خفيفةً، ثم سلم»".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں