بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عقیقہ کے جانور کی ہڈیاں توڑ سکتے ہیں؟


سوال

عقیقہ کے جانور کی ہڈی توڑنا کیسا ہے؟ بعض لوگ منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہڈی کو جوڑ سے الگ کیا جائے اور درمیان سے نہ کاٹا جائے اور دلیل دیتے ہیں کہ ایک حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ آیا ایسی کوئی بات حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟ 

جواب

عقیقہ کے جانور کی ہڈیاں ذبح کے بعد نہ توڑنا اور اعضاء کو جوڑوں سے الگ کرنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، اور یہ مستحب ہے، ضروری نہیں، ہڈیاں نہ توڑنے کی حکمت یہ ہے کہ عقیقہ کا جانور نوزائیدہ بچے کا بدل اور اس کی سلامتی کا ذریعہ ہے، پس عقیقہ کے جانور کی ہڈیاں نہ توڑنا بچے کی ہڈیوں اور اعضاء کی سلامتی کے لیے نیک شگون ہے کہ اس سے بچے کے اعضاء و ہڈیاں سالم رہیں گی، البتہ آج کل جانور کے سالم اعضاء پکانے کا رواج نہیں رہا ہے، اور اس طرح گوشت بنانے میں تقسیم کے وقت بہت سے گھرانوں کے محروم رہنے کا سبب بھی ہے، لہذا عقیقہ کے جانور کی ہڈیاں توڑ کر چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بنانا جائز ہے، ضرورت کے پیشِ نظر ایسا کرنے میں شرعاً قباحت نہیں۔ بلکہ جس جگہ ہڈی توڑنے کو بالکل ممنوع اور نہ توڑنے کو لازم سمجھا جاتا ہو تو اس کے خلاف کرکے حکم کی حیثیت واضح کردینی چاہیے، جیساکہ بعض اکابر کے کلام میں عقیقہ کے جانور کی ہڈی نہ توڑنے کا رد پایا جاتاہے. 

سنن الکبری للبیہقی میں ہے:

18690 باب من قال : لاتكسر عظام العقيقة، ويأكل أهلها منها ويتصدقون

ويهدون:

 "(روى ) أبو داود في المراسيل ، عن محمد بن العلاء ، عن حفص ، عن جعفر بن محمد ، عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في العقيقة التي عقتها فاطمة عن الحسن والحسين عليهم السلام : " أن تبعثوا إلى القابلة منها برجل ، وكلوا وأطعموا ، ولاتكسروا منها عظما".

" ( أخبرناه ) أبو بكر محمد بن محمد ، أنبأ أبو الحسين الداودي ، ثنا أبو علي اللؤلئي ، ثناأبو داود . . . فذكره". 

"18691 ( أخبرنا ) علي بن أحمد بن عبدان ، أنبأ أحمد بن عبيد ، ثنا عثمان بن عمر ، ثنا مسدد ، ثنا عبد الوارث ، عنعامر الأحول ، عن عطاء ، عن أم كرز - رضي الله عنها - قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " عن الغلام شاتان مكافأتان ، وعن الجارية شاة " . قال : وكان عطاء يقول : تقطع جدولا ولايكسر لها عظم ، أظنه قال : ويطبخ . قال : وقال عطاء : إذا ذبحت فقل : بسم الله والله أكبر ، هذه عقيقة فلان ( وفي رواية ) ابن جريج ، عن عطاء ، أنه قال في العقيقة: تقطع آراباً آراباً وتطبخ بماء وملح ويهدي في الجيران . ( وروي ) في ذلك عن جابر بن عبد الله من قوله.  ( ٩/ ٣٠)

تحفة المولود بأحكام المولودمیں ہے:

"استحب أن لايكسر عظامها تفاؤلاً بسلامة أعضاء المولود و صحتها و قوتها" . ( الباب السادس في العقيقة و أحكامها، الفصل الثالث عشر في كراهة كسر عظمها، ص: ٦٢، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وَهِيَ شَاةٌ تَصْلُحُ لِلْأُضْحِيَّةِ تُذْبَحُ لِلذَّكَرِ وَالْأُنْثَى سَوَاءٌ فَرَّقَ لَحْمَهَا نِيئًا أَوْ طَبَخَهُ بِحُمُوضَةٍ أَوْ بِدُونِهَا مَعَ كَسْرِ عَظْمِهَا أَوْ لَا وَاِتِّخَاذِ دَعْوَةٍ أَوْ لَا، وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ" . ( كتاب الأضحية، خَاتِمَةٌ يُسْتَحَبُّ لِمَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ، ٦/ ٣٣٦)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوي الحامديةمیں ہے:

" وَلَا يُكْسَرُ عَظْمُهَا، وَإِنْ كُسِرَ لَمْ يُكْرَهْ". (كتاب الذبائح، ٢ / ٢١٣)

بداية المجتهد و نهاية المقصد لابن الرشد میں ہے:

"و استحب كسر عظامها لما كانوا في الجاهلية يقطعونها من المفاصل" . ( كتاب العقيقة، ١ / ٤٢٢، ط: دار الكتب العلمية) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200196

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں