بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا طالب علم کے فضائل کا اطلاق عصری علوم کے طلباء پر بھی ہوتا ہے؟


سوال

 میں پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اور دین کی کچھ سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہوں، لیکن کچھ دنوں سے ایک مسئلہ میں تشویش کا شکار ہوں. ہمارے یہاں اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ عصری علوم کے متعلمین اور فضلاء پر بھی ان سارے فضائل کا اطلاق ہوتا ہے جو دین کے طلباء اور علماء پر ہوتا ہے، مثلاً دیگر مخلوقات کا ان کے لیے  دعائے استغفار کرنا وغیرہ. اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی ان عصری علوم کے متعلمین پر بھی ان فضائل کا اطلاق ہوگا کہ نہیں؟ 

جواب

احادیث شریفہ میں علم کی فضیلت کا جہاں ذکر آیا ہے  اس سے علمِ دین مراد ہے، یعنی قرآن، حدیث اور فقہ اور جو علوم ان کے حصول کا ذریعہ ہیں، جیسے صرف نحو وغیرہ، یعنی وہ علم جس سے  لوگ عبادات اورمعاملات کے احکامات سے باخبر ہوں، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکیں، اور یہ احکامات فن تفسیر وحدیث وفقہ میں مذکور ہیں۔

اس سےعصری علوم   انگریزی انجینئرنگ، حکمت، ٹیکنیکل وغیرہ مراد نہیں ہے؛ البتہ اگر کوئی شخص دنیوی ضرورت سے یا اچھی نیت سے منکرات سے بچتے ہوئے ان دنیوی علوم کو حاصل کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح ان عصری علوم کے حاصل کرنے کا مقصد اگر خلقِ خد ا کی خدمت ہو، جیسےشعبہ میڈیکل کا طالب اگر یہ نیت رکھے کہ میں ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کروں گا، مسلمانوں کی تکلیف میں ان کا مداوا کروں گا تو اس نیت پر اسے اجر ملےگا۔ 
فتح الباري لابن حجر (1/ 141):
"قوله: ﴿يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ﴾ قيل في تفسيرها: يرفع الله المؤمن العالم على المؤمن غير العالم، ورفعة الدرجات تدل على الفضل؛ إذ المراد به كثرة الثواب، وبها ترتفع الدرجات، ورفعتها تشمل المعنوية في الدنيا بعلو المنزلة وحسن الصيت، والحسية في الآخرة بعلو المنزلة في الجنة. وفي صحيح مسلم عن نافع بن عبد الحارث الخزاعي ـ وكان عامل عمر على مكةـ أنه لقيه بعسفان فقال له: من استخلفت؟ فقال: استخلفت بن أبزى مولى لنا، فقال عمر: استخلفت مولى؟ قال: إنه قارئ لكتاب الله، عالم بالفرائض، فقال عمر: أما إن نبيكم قد قال: إن الله يرفع بهذا الكتاب أقواماً ويضع به آخرين. وعن زيد بن أسلم في قوله تعالى: ﴿نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ﴾ قال: بالعلم قوله، وقوله عز وجل: ﴿رَبِّ زِدْنِيْ عِلْماً﴾ واضح الدلالة في فضل العلم؛ لأن الله تعالى لم يأمر نبيه صلى الله عليه وسلم بطلب الازدياد من شيء إلا من العلم، والمراد بالعلم العلم الشرعي الذي يفيد معرفة ما يجب على المكلف من أمر دينه في عباداته ومعاملاته، والعلم بالله وصفاته وما يجب له من القيام بأمره وتنزيهه عن النقائص، ومدار ذلك على التفسير والحديث والفقه".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں