بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا صلاة التسبیح پڑھنا جائز ہے؟


سوال

کیا صلاۃ التسبیح پڑھنا جائز ہے؟ با حوالہ فتوی عنایت فرما دیں، کیوں کہ میرے کچھ ساتھیوں کا کہنا ہے کہ یہ جائز نہیں!

جواب

صلاۃ التسبیح نہ صرف جائز ہے، بلکہ نفل نمازوں میں بہت فضیلت والی نماز ہے۔ جس کا ثبوت صحیح حدیث سے ہے۔امام ابو عبد اللہ الحافظ النیسابوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المستدرک علی الصحیحین" میں صلاۃ التسبیح والی حدیث کو ذکر کر کے اس کو صحیح قرار دیا ہے، اور علامہ ذھبی رحمہ اللہ نے اس پر نہ صرف یہ کہ سکوت کیا ہے، بلکہ اس حدیث کے دیگر شواہد بھی پیش کیے ہیں۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم (1/ 464):

"حدثناه أبو علي الحسين بن علي الحافظ إملاء من أصل كتابه، ثنا أحمد بن داود بن عبد الغفار بمصر، ثنا إسحاق بن كامل، ثنا إدريس بن يحيى، عن حيوة بن شريح، عن يزيد بن أبي حبيب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم جعفر بن أبي طالب إلى بلاد الحبشة، فلما قدم اعتنقه وقبل بين عينيه، ثم قال: «ألا أهب لك، ألا أبشرك، ألا أمنحك، ألا أتحفك؟» قال: نعم، يا رسول الله. قال: " تصلي أربع ركعات تقرأ في كل ركعة بالحمد وسورة، ثم تقول بعد القراءة وأنت قائم قبل الركوع: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله خمس عشرة مرةً، ثم تركع فتقولهن عشراً تمام هذه الركعة قبل أن تبتدئ بالركعة الثانية، تفعل في الثلاث ركعات كما وصفت لك حتى تتم أربع ركعات. «هذا إسناد صحيح لاغبار عليه، ومما يستدل به على صحة هذا الحديث استعمال الأئمة من أتباع التابعين إلى عصرنا هذا إياه ومواظبتهم عليه وتعليمهن الناس، منهم عبد الله بن المبارك رحمة الله عليه»".

قال الذهبي: أخرجه أبو داود والنسائي، وابن خزيمة في الصحيح ثلاثتهم عن عبد الرحمن بن بشر".

(المستدرک مع التلخیص، ج:۱ ص:۳۱۹، ط:دار المعرفة، بیروت )

اس روایت میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بطورِ تحفہ یہ نماز سکھائی۔ اور یہ روایت ابن خزیمہ، ابوداؤد اور نسائی نے بھی نقل کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی روایات سے اس کا ثبوت ہے، چناں چہ جامع الترمذی کی روایت میں ہے کہ یہ نمازرسول اللہﷺ نےاپنےچچاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کوبطورتحفہ وعطیہ کےسکھائی تھی،اس کی فضیلت یہ ارشادفرمائی ہے کہ اس کےپڑھنےسےسارےگناہ(چھوٹےبڑے) معاف ہوجاتےہیں۔

یہ چار رکعات پر مشتمل نفل نماز ہے۔ اس نماز کے کے پڑھنےکےدوطریقےہیں:

ایک طریقہ یہ ہے کہ چاررکعات صلاۃ التسبیح کی نیت باندھ کرپہلی رکعت میں کھڑےہوکرثناء،تعوذ،تسمیہ،سورۂ فاتحہ اورکوئی سورت پڑھنےکےبعد رکوع میں جانے سے پہلے پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں"سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمدُلِلّٰهِ وَلَاإلٰهِ إلَّاإللّٰهُ وَاللّٰهُ أکْبَرُ" پھررکوع میں " سُبحَان َرَبِّي َالعَظِیْم"کےبعددس مرتبہ تسبیح پڑھیں،پھرقومہ میں " سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه"،"رَبَّنَالَکَ الْحَمدُ"کےبعددس مرتبہ تسبیح پڑھیں، پھرپہلےسجدہ میں " سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعلٰی "کےبعددس مرتبہ پڑھیں، پھرپہلےسجدہ سےاٹھ کرجلسہ میں دس مرتبہ پھردوسرےسجدہ میں " سُبْحَان َرَبِّيَ الأَعْلٰی"کےبعددس مرتبہ تسبیح پڑھیں، پھردوسرےسجدےسےاٹھتےہوئے " اَللهُ اَکْبَرْ " کہہ کربیٹھ جائیں اوردس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔پھربغیر" اَللهُ اَکْبَرْ "کہےدوسری رکعت کےلیےکھڑےہوجائیں.  پھراسی طرح دوسری،تیسری اورچوتھی رکعت مکمل کریں۔ دوسری اورچوتھی رکعت کےقعدہ میں پہلےدس مرتبہ تسبیح پڑھیں اورپھرالتحیات پڑھیں۔اسی ترتیب سےچاروں رکعات میں تسبیح پڑھیں،اس طرح چاررکعات میں کل تسبیحات تین سومرتبہ ہوجائیں گی۔

دوسراطریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں کھڑےہوکرثناءکےبعدپندرہ مرتبہ تسبیح پڑھیں،پھرتعوذ،تسمیہ،سورۂ فاتحہ اورکوئی سورت پڑھ کررکوع میں جانےسےپہلےدس مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں،رکوع،قومہ،پہلےسجدہ،جلسہ اوردوسرےسجدےمیں دس دس مرتبہ تسبیح پڑھیں، اس کےبعد"اللهُ اَکبَر"کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہوجائیں۔ اسی ترتیب سےدوسری،تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیح پڑھیں۔دوسری رکعت میں کھڑےہوتےہی پندرہ مرتبہ تسبیح پڑھیں گے۔(سنن الترمذی،ابواب الوتر،باب ماجاءفی صلاۃالتسبیح،1/117،قدیمی)اسی ترتیب سےباقی رکعات اداکریں۔

یہ دونوں طریقےصحیح اورقابلِ عمل ہیں، جوطریقہ آسان معلوم ہواس کواختیارکیاجائے۔ 

اس نماز کا کوئی خاص وقت نہیں، اسےمکروہ اوقات کے علاوہ جب بھی ہوسکے پڑھ سکتے ہیں، تاہم یہ انفرادی عمل ہے؛ لہذا اجتماعی طور پر ادا کرنا جائز نہیں ۔فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

صلاۃ التسبیح کا تعارف، اہمیت،فضائل اور طریقہ

صلاۃ التسبیح پڑھنے کا طریقہ


فتوی نمبر : 144008201599

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں