بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا رسول اکرم صلی علیہ وسلم نے علماء کے فقر کی دعا کی ہے؟ علماء قرآن کی اصطلاح میں کون ہیں؟


سوال

1- یہ کسی حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : ’’اے اللہ علماء اور معلمین کو فقیر رکھنا‘‘؟ 

بظاہر درست معلوم نہیں ہوتی اس لیے کہ فقر کو کفر کاذریعہ بھی بتایا گیا ہے!

2-  ایک حضرت صاحب نے سورہ فاطر آیت نمبر 28کا ترجمہ یوں کیا: ’’اللہ تعالیٰ سے علماء ہی ڈرتے ہیں‘‘.  اور اس سے مراد معروف علماء مراد لے کر عوام کے مقابل ذکر کیا ۔

اس پر ایک صاحب کہتے ہیں روح المعانی کے مطابق مذکورہ ترجمہ اور تفسیر درست نہیں اور ایسا ترجمہ کرنا تحریفِ معنوی کا ارتکاب ہے ۔ آپ اس کا محقق جواب دے کر فیصلہ فرما دیں۔

جواب

1۔ سوال میں ذکر کردہ روایت تلاش کے باوجود نہ مل سکی، اس کے بر خلاف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فقر اور کفر سے پناہ مانگنا صحیح احادیث سے ثابت ہے، جیسا کہ سنن نسائی و دیگر کتب احادیث میں ہے:

"عَنْ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: كَانَ أَبِي يَقُولُ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكُفْرِ وَالْفَقْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ". فَكُنْتُ أَقُولُهُنَّ فَقَالَ أَبِي: أَيْ بُنَيَّ عَمَّنْ أَخَذْتَ هَذَا ؟ قُلْتُ: عَنْكَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُهُنَّ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ". رواه الإمام النسائي ( 1347 ) وإسناده حسن ، وصححه ابن حبان في " صحيحه " ( 3 / 303) وابن خزيمة في " صحيحه " ( 1 / 367 ) والحاكم في " مستدركه " ( 1 / 383 ).

پس سوال میں ذکر کردہ دعا کی نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔

2۔ مذکورہ آیت کا وہی ترجمہ اور  تفسیر معتبر ہے جو جمہور مفسرین نے کیا ہے۔ چناں چہ معارف القرآن میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:

{أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفُ اَ لْوَانُهُ كَذٰلِكَ ؕ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمآءُ  ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزُ غَفُوْرٌ ۞} ’’ترجمہ: اور آدمیوں میں اور کیڑوں میں اور چوپاؤں میں کتنے رنگ ہیں، اسی طرح اللہ سے ڈرتے وہی ہیں اس کے بندوں میں جن کو سمجھ ہے،  تحقیق اللہ زبردست ہے بخشنے والا۔‘‘

تفسیر:

’’(آیت) {کذلك  انما یخشی الله من عباده العلماء}، اس جگہ لفظ  ’’كذلك‘‘ پر جمہور کے نزدیک وقف ہے، جو اس کی علامت ہے کہ یہ لفظ پچھلے مضمون کے ساتھ متعلق ہے۔ یعنی مخلوقات کو مختلف انواع و اقسام اور مختلف الوان پر بڑی حکمت کے ساتھ بنانا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی خاص نشانی ہے۔ اور بعض روایات سے مستفاد ہوتا ہے کہ اس لفظ کا تعلق اگلے جملے سے ہے،  یعنی جس طرح ثمرات، پہاڑ، حیوانات اور انسان مختلف رنگوں پر منقسم ہیں، اسی طرح خشیت اللہ میں بھی لوگوں کے درجات مختلف ہیں، کسی کو اس کا اعلیٰ درجہ حاصل ہے، کسی کو کم، اور مدار اس کا علم پر ہے جس درجہ کا علم ہے اسی درجہ کی خشیت بھی ہے۔ (روح)

سابقہ آیات میں ارشاد فرمایا تھا: {انما تنذر الذین یخشون ربهم بالغیب} جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے فرمایا تھا کہ آپ کے انداز و تبلیغ کا فائدہ تو صرف وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو غائبانہ اللہ تعالیٰ سے خوف و خشیت رکھتے ہیں، اس کی مناسبت سے آیت {انما یخشی الله من عباده العلماء} میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کو اللہ تعالیٰ کی خشیت حاصل ہے۔ اور جیسا پہلے کفار و منکرین کا اور ان کے احوال کا ذکر آیا ہے، اس میں خاص اولیاء اللہ کا ذکر ہے۔ لفظ ’’إِنَّمَا‘‘ عربی زبان میں حصر بیان کرنے کے لیے آتا ہے، اس لیے اس جملے کے معنی بظاہر یہ ہیں کہ ’’صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں‘‘.  مگر ابن عطیہ وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ حرفِ ’’إِنَّمَا‘‘ جیسے حصر کے لیے آتا ہے ایسے ہی کسی کی خصوصیت کے بیان کرنے کے لیے بھی مستعمل ہوتا ہے، اور یہاں یہی مراد ہے کہ خشیة الله علماء کا وصفِ خاص اور لازم ہے۔ یہ ضرور نہیں کہ غیر عالم میں خشیةنہ ہو ۔(بحر محیط، ابو حیان)۔

اور آیت میں لفظِ  علماء سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ جل شانہ، کی ذات وصفات کا کماحقہ علم رکھتے ہیں، اور مخلوقاتِ عالم میں اس کے تصرفات پر اور اس کے احسانات و انعامات پر نظر رکھتے ہیں۔ صرف عربی زبان یا اس کے صرف و نحو اور فنونِ بلاغت جاننے والوں کو قرآن کی اصطلاح میں عالم نہیں کہا جاتا، جب تک اس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت مذکورہ طریق پر حاصل نہ ہو۔ حسنِ بصری نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ عالم وہ شخص ہے جو خلوت و جلوت میں اللہ سے ڈرے، اور جس چیز کی اللہ تعالیٰ نے ترغیب دی ہے وہ اس کو مرغوب ہو اور جو چیز اللہ کے نزدیک مبغوض ہے اس کو اس سے نفرت ہو۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: ” یعنی بہت سی احادیث یاد کرلینا یا بہت باتیں کرنا کوئی علم نہیں، بلکہ علم وہ ہے جس کے ساتھ اللہ کا خوف ہو “.

حاصل یہ ہے کہ جس قدر کسی میں خدائے تعالیٰ کا خوف ہے وہ اسی درجہ کا عالم ہے۔ اور احمد بن صالح مصری نے فرمایا کہ ’’خشیتہ اللہ‘‘  کو کثرتِ روایت اور کثرتِ معلومات سے نہیں پہچانا جاسکتا، بلکہ اس کو کتاب و سنت کے اتباع سے پہچانا جاتا ہے۔ (ابن کثیر)

شیخ شہاب الدین سہروردی نے فرمایا کہ اس آیت میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جس شخص میں خشیت نہ ہو وہ عالم نہیں۔ (مظہری)

اس کی تصدیق اکابر سلف کے اقوال سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت ربیع بن انس نے فرمایا: ” یعنی جو اللہ سے نہیں ڈرتا وہ عالم نہیں “. اور مجاہد نے فرمایا: ” یعنی عالم تو صرف وہی ہے جو اللہ سے ڈرے“. سعد بن ابراہیم سے کسی نے پوچھا کہ مدینہ میں سب سے زیادہ فقیہ کون ہے ؟ تو فرمایا: "أتقاهم لربه"، ” یعنی جو اپنے رب سے زیادہ ڈرانے والا ہو “۔  اور حضرت علی مرتضیٰ نے فقیہ کی تعریف اس طرح فرمائی: ” مکمل فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس بھی نہ کرے اور ان کو گناہوں کی رخصت بھی نہ دے، اور ان کو اللہ کے عذاب سے مطمئن بھی نہ کرے، اور قرآن کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کی طرف رغبت نہ کرے، (اور فرمایا) اس عبادت میں کوئی خیر نہیں جو بےعلم کے ہو اور اس علم میں کوئی خیر نہیں جو بےقصہ یعنی بےسمجھ  بوجھ کے ہو اور اس قراء ت میں کوئی خیر نہیں جو بغیر تدبر کے ہو “۔ 

مذکورہ تصریحات سے یہ شبہ بھی جاتا رہا کہ بہت سے علماء کو دیکھا جاتا ہے کہ ان میں خدا کا خوف و خشیت نہیں۔ کیوں کہ تصریحاتِ بالا سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک صرف عربی جاننے کا نام علم اور جاننے والے کا نام عالم نہیں، جس میں خشیت نہ ہو وہ قرآن کی اصطلاح میں "عالم" ہی نہیں۔ البتہ خشیت کبھی صرف اعتقادی اور عقلی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آدمی بہ تکلف احکامِ شرعیہ کا پابند ہوتا ہے، اور کبھی یہ خشیتہ حالی اور ملکہ راسخہ کے درجہ میں ہوجاتی ہے، جس میں اتباع شریعت ایک تقاضائے طبیعت بن جاتا ہے۔ خشیت کا پہلا درجہ ماموربہ اور عالم کے لیے ضروری ہے،  دوسرا درجہ افضل واعلیٰ ہے ضروری نہیں۔ (از معارف القرآن) (سورۃ نمبر 35 فاطر، آیت نمبر 28)

خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک کی اس آیت میں ’’علماء‘‘ سے مراد وہ مسلمان اہلِ علم ہیں جن کے دل میں خوفِ خداوندی اور خشیتِ الٰہی ہو، البتہ یہاں حصر نہیں ہے، بلکہ علماء کی خصوصیت اور صفت کا بیان ہیں کہ علماء واقعۃً اللہ سے ڈرتے ہیں، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ غیر عالم خوفِ خدا نہیں رکھتے۔

تفسير السعديمیں ہے:

{ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ } فكل من كان باللّه أعلم، كان أكثر له خشية، وأوجبت له خشية اللّه، الانكفاف عن المعاصي، والاستعداد للقاء من يخشاه، وهذا دليل على فضيلة العلم، فإنه داع إلى خشية اللّه، وأهل خشيته هم أهل كرامته، كما قال تعالى: { رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ } ( سورة الفاطر: ٢٨)

تفسير ابن كثيرمیں ہے:

"{إنما يخشى الله من عباده العلماء} أي : إنما يخشاه حق خشيته العلماء العارفون به؛ لأنه كلما كانت المعرفة للعظيم القدير العليم الموصوف بصفات الكمال المنعوت بالأسماء الحسنى  كلما كانت المعرفة به أتم والعلم به أكمل، كانت الخشية له أعظم وأكثر. قال علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس في قوله تعالى: {إنما يخشى الله من عباده العلماء} قال: الذين يعلمون أن الله على كل شيء قدير. وقال ابن لهيعة ، عن ابن أبي عمرة، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: العالم بالرحمن من لم يشرك به شيئاً، وأحل حلاله، وحرم حرامه، وحفظ وصيته، وأيقن أنه ملاقيه ومحاسب . وقال سعيد بن جبير: الخشية هي التي تحول بينك وبين معصية الله عز وجل. وقال الحسن البصري: العالم من خشي الرحمن بالغيب، ورغب فيما رغب الله فيه، وزهد فيما سخط الله فيه، ثم تلا الحسن: {إنما يخشى الله من عباده العلماء إن الله عزيز غفور}. وعن ابن مسعود، رضي الله عنه، أنه قال: ليس العلم عن كثرة الحديث، ولكن العلم عن كثرة الخشية. وقال أحمد بن صالح المصري، عن ابن وهب، عن مالك قال: إن العلم ليس بكثرة الرواية، وإنما العلم نور يجعله الله في القلب. قال أحمد بن صالح المصري: معناه: أن الخشية لاتدرك بكثرة الرواية، وأما العلم الذي فرض الله، عز وجل، أن يتبع فإنما هو الكتاب، وما جاء عن الصحابة، رضي الله عنهم، ومن بعدهم من أئمة المسلمين، فهذا لايدرك إلا بالرواية ويكون تأويل قوله: " نور " يريد به فهم العلم، ومعرفة معانيه. وقال سفيان الثوري، عن أبي حيان [ التميمي ]، عن رجل قال: كان يقال: العلماء ثلاثة: عالم بالله عالم بأمر الله، وعالم بالله ليس بعالم بأمر الله، وعالم بأمر الله ليس بعالم بالله. فالعالم بالله وبأمر الله: الذي يخشى الله ويعلم الحدود والفرائض. والعالم بالله ليس بعالم بأمر الله: الذي يخشى الله ولايعلم الحدود ولا الفرائض. والعالم بأمر الله ليس بعالم بالله: الذي يعلم الحدود والفرائض، ولايخشى الله عز وجل". ( سورة فاطر، رقم الاية: ٢٨) تفسیر القرطبیمیں ہے:

" كذلك " هنا تمام الكلام ; أي كذلك تختلف أحوال العباد في الخشية يعني بالعلماء الذين يخافون قدرته؛ فمن علم أنه عز وجل قدير أيقن بمعاقبته على المعصية، كما روى علي بن أبي طلحة عن ابن عباس إنما يخشى الله من عباده العلماء قال: الذين علموا أن الله على كل شيء قدير. وقال الربيع بن أنس: من لم يخش الله تعالى فليس بعالم. وقال مجاهد: إنما العالم من خشي الله عز وجل. وعن ابن مسعود: كفى بخشية الله تعالى علماً وبالاغترار جهلاً. وقيل لسعد بن إبراهيم: من أفقه أهل المدينة؟ قال: أتقاهم لربه عز وجل. وعن مجاهد قال: إنما الفقيه من يخاف الله عز وجل. وعن علي رضي الله عنه قال: إن الفقيه حق الفقيه من لم يقنط الناس من رحمة الله، ولم يرخص لهم في معاصي الله تعالى، ولم يؤمنهم من عذاب الله، ولم يدع القرآن رغبةً عنه إلى غيره؛ إنه لا خير في عبادة لا علم فيها، ولا علم لا فقه فيه، ولا قراءة لا تدبر فيها. وأسند الدارمي أبو محمد عن مكحول قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن فضل العالم على العابد كفضلي على أدناكم، ثم تلا هذه الآية: {إنما يخشى الله من عباده العلماء}، إن الله وملائكته وأهل سماواته وأهل أرضيه والنون في البحر يصلون على الذين يعلمون الناس الخير الخبر مرسل. قال الدارمي: وحدثني أبو النعمان حدثنا حماد بن زيد عن يزيد بن حازم قال: حدثني عمي جرير بن زيد أنه سمع تبيعاً يحدث عن كعب قال: إني لأجد نعت قوم يتعلمون لغير العمل، ويتفقهون لغير العبادة، ويطلبون الدنيا بعمل الآخرة، ويلبسون جلود الضأن، قلوبهم أمر من الصبر؛ فبي يغترون، وإياي يخادعون، فبي حلفت لأتيحن لهم فتنةً تذر الحليم فيهم حيران. خرجه الترمذي مرفوعاً من حديث أبي الدرداء، وقد كتبناه في مقدمة الكتاب. الزمخشري: فإن قلت: فما وجه قراءة من قرأ (إنما يخشى الله) بالرفع {من عباده العلماء}  بالنصب، وهو عمر بن عبد العزيز. وتحكى عن أبي حنيفة؟  قلت: الخشية في هذه القراءة استعارة، والمعنى: إنما يجلهم ويعظمهم كما يجل المهيب المخشي من الرجال بين الناس من بين جميع عباده". ( الفاطر: ٢٨)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200962

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں