بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حاجی پر نصاب والی قربانی واجب ہے؟


سوال

اگر کوئی شخص اتنی حیثیت رکھتا ہو کہ حج کے علاوہ بھی قربانی کر سکتا ہو تو کیا اس پر قربانی کرنا واجب ہوگی؟ اور اگر واجب ہے تو اب کیا کرے کفارہ  ادا کرے؟ اور کفار ہ کیا ہے؟

جواب

حاجی پر قربانی سے متلق یہ تفصیل ہے کہ  قربانی دو طرح کی ہوتی ہے:

(1)  ایک قربانی تو وہ ہے جو صاحبِ نصاب مقیم پر واجب ہوتی ہے خواہ حج کرنے جائے یا نہ جائے، اگر حاجی صاحبِ نصاب ہے اور  قربانی کے دنوں میں مکہ مکرمہ میں مقیم ہے، یعنی منی جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن اس کا قیام ہو  یا مستقل وہیں رہتا ہے،  تو اس پر یہ قربانی واجب ہے، اور اسے اختیار ہے کہ  چاہے تو مکہ مکرمہ یا مدینہ میں  قربانی کا انتظام کرے یا اپنے وطن میں قربانی کی رقم بھیج دے یا وطن میں کسی کو قربانی کرنے کا کہہ دے، البتہ منیٰ میں قربانی کرنے کا ثواب پوری دنیا کی تمام جگہوں سے زیادہ ہے۔ اور کسی بھی جگہ ایک قربانی کرنے سے یہ فرض ادا ہوجائے گا۔

 (2)  دوسری قربانی سے مراد "دمِ شکر" ہے، حجِ قِران اور تمتع کرنے والوں  پر ایامِ نحر  (10،11،12 ذوالحجہ) میں  حلق (سرمنڈوانے) یا بال کٹوانے سے پہلے منیٰ یا حدود حرم میں یہ قربانی کرنا واجب ہے۔حجِ افراد  (صرف حج) کرنے والوں پر یہ قربانی واجب نہیں ہے۔

لہذا اگر حاجی ایام حج میں مقیم نہیں تھا، مسافر تھا یعنی منی جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن اس کا قیام نہیں ہوا تو اس پر نصاب والی قربانی واجب ہی نہیں، اور اگر مقیم تھا تو قربانی واجب ہو گی اور قربانی نہ کرنے کی صورت میں  ایک متوسط بکرا یا بکری یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہو گا،بعض کے نزدیک قربانی کے ایک حصے کے برابررقم صدقہ کرنا کافی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں