بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ’’تشہد‘‘ معراج کے موقع پر اللہ اور رسول ﷺ کے درمیان ہونے والا مکالمہ ہے؟


سوال

تشہد کے بارے میں جو آتا ہے کہ یہ اللہ اور رسول کے درمیان کلام تھا جو معراج کے موقع پر ہوا تھا،  کیا یہ بات صحیح ہے؟ اس کا قصہ کسی کتاب میں ہے؟ حوالہ دے سکتے ہیں جس میں یہ قصہ ملے؟

جواب

واضح رہے کہ تشہد کے حوالہ سے جو یہ بات مشہور ہے کہ "معراج کے موقع پر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان یہ مکالمہ ہوا تھا"، ایسی کوئی روایت سندِ متصل کے ساتھ نہ حدیث کی کسی مستند کتاب میں ملتی ہے اور نہ ہی ضعیف سند کے ساتھ ملتی ہے، تاہم ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مشکاۃ المصابیح کی شرح مرقاۃ المفاتیح میں بغیر سند کے ابن ملک کے حوالہ سے مذکورہ واقعہ بصیغہ مجہول نقل کیا ہے، نیز مظاہرِ حق جدید میں بھی مذکورہ واقعہ معلق نقل کیا گیا ہے، علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے بھی قدرِ اختصار کے ساتھ سورہ یس کی آیت نمبر 58 کی تفسیر کے ذیل میں روح المعانی میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے، اسی طرح کنز الدقائق کی شرح تبیین الحقائق میں بھی اس واقعہ کی طرف اشارہ ملتا ہے، نیز علامہ بدر الدین عینی رحمہ نے بھی شرح سننِ ابی داؤد میں اس واقعہ کی طرف بلا سند اشارہ کیا ہے، تاہم اس واقعہ کو تفصیل و اختصار کے ساتھ نقل کرنے والوں میں سے کسی نے بھی اس کی سند بیان نہیں کی ہے، لہذا اس واقعہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان نہیں کرنا چاہیے، اگر بیان ہی کرنا ہو تو مذکورہ اہلِ علم کے حوالے سے نیز سند نہ ہونے کی صراحت کے ساتھ بیان کیا جائے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، لملا علي القاريمیں ہے:

"قَالَ ابْنُ الْمَلَكِ: رُوِيَ: أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا عُرِجَ بِهِ أَثْنَى عَلَى اللَّهِ تَعَالَى بِهَذِهِ الْكَلِمَاتِ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: «السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَقَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ: السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، فَقَالَ جِبْرِيلُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» اهـ، وَبِهِ يَظْهَرُ وَجْهُ الْخِطَابِ، وَأَنَّهُ عَلَى حِكَايَةِ مِعْرَاجِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي آخِرِ الصَّلَاةِ الَّتِي هِيَ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِينَ". ( باب التشهد، ٢/ ٧٢٣)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"وَقَالَ أَبُو الْمُنْذِرِ وَأَبُو الْحَسَنِ بْنُ بَطَّالٍ: الْأَعْمَالُ الصَّالِحَةُ السَّلَامُ عَلَيْك أَيْ سَلَّمَ اللَّهُ عَلَيْك تَسْلِيمًا وَسَلَامًا، ثُمَّ رُفِعَ لِيَدُلَّ عَلَى الثُّبُوتِ بِالِابْتِدَاءِ وَفِي الْمَنَافِعِ يَعْنِي ذَلِكَ السَّلَامُ الَّذِي سَلَّمَهُ اللَّهُ عَلَيْك لَيْلَةَ الْمِعْرَاجِ وَالْبَرَكَةُ الْخَيْرُ". (باب شروط الصلاة، ١/ ١٢١)

{ سَلامٌ قَوْلاً مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ} يّـس /58:

"فقالوا : " يشير إلى السلام الذي سلمه الله على حبيبه عليه السلام ليلة المعراج إذ قال له : " السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته " ، فقال في قبول السلام : " السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين " انتهى . انظر "روح المعاني" للآلوسي" (3/38)

و كما ذكره بدر الدين العيني في "شرح سنن أبي داود" (4/238) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں